اباجی

کبھی کبھی زندگی ایک ایسی چکی بن جاتی ہے، جس کے دو پاٹوں کے بیچ انسان پسنے لگتا ہے۔ ایک پاٹ حالات کا، دوسرا زمانے کے تھپیڑوں کا۔ اور ان کے بیچ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ جو ہر دن، ہر لمحہ، ریزہ ریزہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ ڈھانچہ میں ہوں۔

جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ دوں۔ بس آنکھیں بند کر لوں۔ نہ سوال باقی رہے، نہ جواب ڈھونڈنے کی تگ و دو۔ بے جان سا زمین پر ڈھہ جاؤں، جیسے بچپن میں گر جاتا تھا۔ پھر ابا جی کی وہی آواز آئے:
"اُٹھ میرا بچہ، کچھ بھی نہیں ہوا۔”
اور سچ میں، ہمیشہ کی طرح سب کچھ ٹھیک ہو جائے اور میں پھر سے وہی بے فکری اوڑھ لوں، جو کبھی میری زندگی کا حصہ ہوا کرتی تھی۔

لیکن اب وہ آواز نہیں آتی. کیونکہ اب اباجی نہیں ہیں۔

جب کبھی کچھ بگڑ جاتا تھا، ابا جی کہتے: "جو ہونا تھا، ہو گیا… اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔” اور میرا دل واقعی مطمئن ہو جاتا۔
جب کوئی بات سمجھ نہ آتی، میں ابا جی سے پوچھتا۔ جو وہ کہتے، آنکھ بند کر کے مان لیتا، اور سکھی رہتا۔

ان کا پیار، ان کی ڈانٹ، ان کے مشورے، ان کا ہنسی مذاق…
کبھی کبھی حیرت ہوتی تھی کہ جو بات میں نے ان سے چھپائی ہوئی تھی، انہیں پہلے سے ہی کیسے پتا ہوتی تھی۔ ابا جی میرے دل کا حال آنکھوں سے پڑھ لیتے تھے۔

ابا جی کا سراپا آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ جناح کیپ پہنے، شیروانی میں ملبوس۔ بہت بارعب اور خوبصورت۔
جب وہ کتابوں میں گھرے بیٹھ کر اپنا کام کر رہے ہوتے تھے.
جب وہ مجھے فارسی اور عربی پڑھاتے تھے.
ان کی آواز ابھی تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔

"ابا جی” ایک قلعہ تھے، جہاں میں پناہ لیتا تھا۔ ان کی موجودگی کی چھتری کے نیچے بارش میں سکون اور آندھیوں میں تحفظ تھا۔
طوفان آتے تھے تو بس ابا جی کا ہاتھ تھام لیا کرتا تھا۔
چاہے جتنی بڑی الجھن ہوتی، ابا جی آ کر ایک لفظ، ایک مسکراہٹ اور ایک تھپکی سے سب سنوار دیا کرتے تھے۔
زندگی میں مسائل تھے، مگر فکر نہیں تھی کیونکہ ابا جی موجود تھے۔

اب، ہر تھکن، ہر شکست کے بعد، دل چاہتا ہے کہ ابا جی آ جائیں. اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہیں: "چھوڑو سب کچھ، میں دیکھ لوں گا۔”
اور میں پھر وہی ان کا پیارا بچہ بن جاؤں جو صرف ان کے سائے میں جیتا تھا۔

غلط کہتے ہیں کہ وقت سب کچھ ٹھیک کر دیتا ہے۔ صرف یادیں دھندلا جاتی ہیں، درد کم نہیں ہوتا۔

کاش زندگی ایک لمحے کو پلٹ جائے میں ان کے سامنے بیٹھ سکوں، اپنا سر ان کی گود میں رکھ کر آہستہ سے کہہ سکوں:
"ابا جی، میں تھک گیا ہوں.”
اور وہ ہمیشہ کی طرح ہنس کر میرا ماتھا چوم لیں۔

رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے