16 مئی 1980ء… یہ کوئی معمولی دن نہ تھا۔ یہ دن اسلام آباد کی سرزمین پر ایمان، اتحاد اور تہذیبِ اسلامی کے ایک عظیم مظہر کا گواہ بنا۔ یہ وہ دن تھا جب فیصل مسجد . جو اس وقت ابھی زیرِ تعمیر تھی ، نے پہلی بار اللہ اکبر کی صدائے جمعہ سنی۔ اس روز ایک ایسا روحانی منظر رقم ہوا جسے وقت کی گرد بھی مٹانے سے قاصر ہے۔
شیخ محمد علی الحرکان، جو اُس وقت رابطۂ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے، نے اس تاریخی نمازِ جمعہ کی امامت کی۔ ان کے پیچھے صف بستہ تھے صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق، اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کے معزز مہمان، اور ہزاروں عاشقانِ توحید، جن کی آنکھوں میں عقیدت کی چمک تھی اور دلوں میں امتِ مسلمہ کی وحدت کی تمنا۔
فیصل مسجد کی تعمیر کا آغاز سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کی خواہش پر ہوا تھا . وہی شاہ فیصل جن کے نام پر یہ عظیم مسجد منسوب ہے۔ اس وقت یہ عظیم الشان عمارت مکمل نہیں ہوئی تھی، مگر روحانیت نے اسے مکمل کر دیا۔ بغیر در و دیوار کے، بغیر سنگِ مرمر کی چمک کے، اس دن مسجد کا حسن اپنے عروج پر تھا . کیونکہ اس میں اذان کی گونج تھی، تلاوت کی خوشبو تھی، اور سجدوں کی روشنی تھی۔
اس دن فیصل مسجد محض ایک عمارت نہیں رہی، بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت، اسلامی بھائی چارے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کی علامت بن گئی۔ اسلام آباد کی پہاڑیوں کے دامن میں بنی یہ مسجد آج بھی گواہ ہے اُس لمحے کی جب تعمیر سے پہلے تکمیل کا اعلان ہوا۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مسجد صرف پتھروں سے نہیں بنتی، بلکہ ایمان، اخلاص اور عبادت سے زندہ ہوتی ہے۔ اور جب حکمران، علما اور عوام ایک صف میں کھڑے ہوں، تو پھر مسجد صرف عبادت گاہ نہیں رہتی، وہ ایک پیغام بن جاتی ہے . اتحاد کا، امن کا، اور سربلندیٔ دین کا۔
آج جب ہم فیصل مسجد کے میناروں کو دیکھتے ہیں، تو وہ نہ صرف فنِ تعمیر کا شاہکار دکھائی دیتے ہیں، بلکہ تاریخ کے اس روشن دن کی گواہی بھی دیتے ہیں . 16 مئی 1980ء جب زیرِ تعمیر مسجد میں روحانیت نے اپنا پہلا قدم رکھا اور وقت نے سجدہ کیا۔