سندور، رقص العیالہ، فلسطین کے بچے، 1971 کا بدلہ، سب سنجیدہ معاملات ہیں مگر…

سندور، رقص العیالہ، فلسطین کے بچے، اور ١٩٧١ کا بدلہ، یہ سب سنجیدہ موضوعات ہیں جن کے پیچھے درد، جدوجہد اور انسانی حقوق کی پامالی چھپی ہوئی ہے۔مگر کیا ہم اس درد کو اکثر مذاق میں تبدیل کر کے یا ان کی طرف سے نظریں پھیر کر ان کی سنگینی کو کم کر سکتے ہیں؟

آج کے ماحول میں جب پاکستان میں بجا طور پر ایک چالاک اور مکار دشمن کی مسلط کردہ جنگ کو باعزت طور پر نہ صرف جھیل کر بلکہ عسکری صلاحیتوں کی شاندار عکاسی پر بجا طور پر ایک شادمانی کا ماحول ہے، شاید ایسی باتیں کرنا یا لکھنا آپ کو مشکل میں ڈال سکتا ہو . ملکی سطح پر شاید آپ کی وطن پرستی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے اور عالمی سطح پر امریکی صدر اور عرب ممالک کی سیاست اور طرز حکمرانی پر بات کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں . ان تمام اندیشوں اور مضمرات کو جانتے ہوئے بھی میں یہ لازم جانتی ہوں کہ حق بات کہی جائے .

"کبھی آؤ نہ سندور لگا کے” ٹرک آرٹ کی طرز پر یہ جملہ اکثر وہاٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جہاں کئی جانے مانے پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں . بھارتی فوج یا مودی سرکار نے اپنی جارحیت کا نام سندور اپنی ازلی حماقت، یا ذلت کمانے کے شوق میں کیوں رکھا اس سے مجھ کو سروکار نہیں، ہاں عورت کی تکریم اہم ہے۔ سندور ایک علامت ہے شادی شدہ ہندو عورت کی۔ ہمارے پاکستان میں بھی پاکستانی ہندو ہیں، کچھ نہیں تو اپنی پاکستانی ہندو بہنوں، بیٹیوں کی عزت کا خیال کرتے ہوئے ہی ایسے جملوں یا جگتوں سے گریز کیا جائے۔

رقص العیالہ!جاہلیت کے زمانے کی ایک فضول رسم کو ثقافتی ورثہ قرار دینا کہاں کی ذہانت ہے یا ان کا اسلامی تعلیمات سے کیا تعلق ہے؟ مگر طاقتور کے آگے سب بے بس ہیں، لہٰذا ٹرمپ صاحب اور سعودی حکمرانوں پر بات کرنا بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ مجھے کہنے دیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے دوران رقص العیالہ کا جو مظاہرہ کیا گیا، وہ نہایت افسوسناک اور غیر موزوں تھا۔ ایسے ثقافتی مظاہرے جب سیاسی مواقع پر بطور تماشا پیش کیے جائیں، تو یہ فنون لطیفہ کی عزت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور انسانی جذبات کا مذاق اڑاتے ہیں۔

کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور آخرت پر یقین ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے، مگر ہم بے بس کمزور لوگ ہیں . ہمارے طاقتور مسلمان حکمران اللہ پاک کو قیامت کے روز فلسطینی بچوں اوران کی عوام کی شکایات کا جواب دینا ہوگا . شائد وہ بھول جاتے ہیں اور اس کو حقیقت پسندی اور ماہرانہ ڈپلومسی گردانتے ہیں ۔ مقامی طور پر فلسطین کے نام پر چندہ، ‘جلسے’، ‘جلوس’ کو اسلامی لبادہ اوڑھا کر ہم دل کو تسلی دے دیتے ہیں۔

بنگلہ دیش پاکستان بھائی بھائی ! شکر اللہ ! مگر کچھ بے رحم حقائق کا سامنا تو کریں یہ مٹی پاؤ ڈاکٹرائن ہر جگہ نہیں چل سکتا .

ہم اپنی لا علمی اور بے حسی کو بھی بہادری اور زندہ دلی کا نام دے دیتے ہیں . شاید اس لیے کوئی آواز نہیں ہے جس نے بنگلہ دیش کے سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج اور پاکستان کی شان میں قصیدہ گوئی پر اتنا بھی پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ آج جب پاکستان اپنے غیور عوام کی سپورٹ اور ہر گھڑی تیار بہادر فوج کے ساتھ اپنے سے کئی گنا بڑی قوتوں کے ساتھ لڑ رہا ہے تو تم نے ایک مرتبہ بھی معذرت نہیں کی اس دھوکے اور بغاوت کی جو تم نے "آزادی کی جنگ” کے نام پر کی، جس میں تمہارے انڈیا سے تربیت یافتہ بنگالی مسلم مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں تعینات پاکستانی فوج کی فیملیز سمیت ان کا ساتھ دینے والی بہاری اور دیگر اردو سپیکنگ کمیونٹیز کو چن چن کر قتل کیا.

میں اپنی پاکستانی بہاری برادری کی بربادی کا نوحہ کرتے کرتے تھک سی گئی ہوں، پھر بھی اپنے وزیرِ اعظم (چاہے وہ کسی بھی وجہ سے اس کرسی پر ہوں، ہیں تو پاکستانی ) سے پوچھنا چاہوں گی کہ آج جب آپ تشکر میں ہیں اور آپ کو فخر بھی ہے کہ "ہم نے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے”، تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے ہی لوگوں کو، جیسے بیہاری کمیونٹی کو، نہیں بھلایا؟ تین لاکھ سے زائد بہاری اور پاکستان کا ساتھ دینے والے غیر بنگالی اردو اسپیکرز لوگ آج بھی بنگلہ دیش کے ازیت خانوں میں، جنہیں کیمپ بھی کہا جاتا ہے، بغیر شہریت کے پھنسے ہوئے ہیں۔

جو لوگ کبھی مشرقی پاکستان کا حصہ تھے، اور کسی طرح پاکستان آ بھی گئے تو کیا وہ آج یہاں پاکستان میں کیا برابر ہیں؟ ( میں فاطمی صاحب جو ایک بہاری ہیں اور آپ کی پارٹی میں بھی ہیں جیسے نادر لوگوں کی بات نہیں کر رہی ایلیٹ اپنی کمیونٹی کے مظلوم لوگوں کے ساتھ کم ہی رابطہ رکھتے ہیں اور ان کے لیے آواز بھی نہیں اٹھاتے ہیں ) کیا یہ انسانی وقار کے اصولوں کے خلاف نہیں؟ کیا آپ ایک نظر ہمدلی/ایم پتھی کی ( پلیز ہمیں ہمدردی کی ترس کی بھیک کی ضرورت نہیں ) میری پاکستانی برباد بہاری برادری پر بھی ڈالنا گوارا کریں گے؟

کیا بنگلہ دیش سے کچھ تلخ مگر برحق سوالات کرنے کی جرأت کریں گے؟ کچھ نہیں تو بنگلہ دیش جا کر میجر محمّد اکرم شہید، نشانِ حیدر کی قبر (نجانے کس حال میں ہے) پر فاتحہ خوانی ہی کر آئیے۔ کچھ نہیں تو نصاب میں ہماری قربانیوں کا بھی ذکر کر دیں۔ ہم نے پاک افواج کے ساتھ لڑا اور پاکستان کی حکومتوں نے ہمیں نہ صرف بھلا دیا بلکہ ہماری داستان کو چھپا لیا اور ہماری شناخت کو تمسخر بنایا۔

کیا یہ طاقت کی حکمرانی کا مظہر نہیں کہ کمزوروں کی آوازیں دب جاتی ہیں اور ان کے دکھوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے؟ منزل انکو مل جاتی ہے جو شریک سفر بھی نہ تھے ؟

فلسطین کے مرتے ہوئے بچے، بھوک، نسل کشی، ذہنی صدمہ . کیا یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے معمول بن چکے ہیں؟ اور سندور، جنگی زیادتیوں پر مذاق کرنا، کیا یہ سب کوئی معمول ہے یا نیا معمول؟

نسائی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ سب طاقت کے غیر منصفانہ استعمال کی مثال ہے، جہاں کمزور طبقہ دب جاتا ہے اور طاقتور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ اسلام اور انسانی اخلاقیات ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور انسانیت کا احترام کرنے کا درس دیتی ہیں، نہ کہ اس کا مذاق اڑانے کا۔

پاکستانی قوم کی اعلیٰ ظرفی اور شرافت اس وقت معنی رکھتی ہے جب وہ ظلم کے خلاف بھی آواز بلند کرے اور انسانی وقار کی حفاظت کرے۔ جنگ نظریات کی ہوتی ہے، انسانوں کی نہیں۔ ہمیں اپنی سیرتِ نبی ﷺ کی روشنی میں انسانیت کو وسعت دینی چاہیے، نہ کہ اسے محدود کرنا چاہیے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، حقائق کو تسلیم کریں، اور جنگ کے پس منظر میں چھپے ہوئے انسانوں کے درد کو محسوس کریں۔ یہی وہ اصل پاکستانی چہرہ ہے جو نفرت نہیں، محبت اور انصاف کا ترجمان ہے۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے