ڈیوائٹ ڈیوڈ آئزن ہاور: ایک جرآت مند جرنیل اور دانشمند رہنما

آج جب پوری دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے اور ہر طرف ان کے نام اور کام کے ڈنگے بج رہے ہیں تو میرا ذہن فوراً سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی طرف چلا گیا جو کہ جنگ اور امن، سیاست اور تاریخ کا ایک نہایت تابناک باب ہے نیز جن کے اقدامات اور خیالات کو نظر انداز کر کے حالیہ تاریخ کا نقشہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ وہ جرآت مند بھی تھے اور دانشمند بھی، وہ اپنے اندر جلال بھی رکھتا تھا اور جمال بھی، وہ حاوی بھی رہے اور صابر بھی، کچھ محاذ گرمائے بھی اور کچھ ٹھنڈا کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ آپ طاقت اور حکمت کے امتزاج سے بنی ہوئی ایک خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ حقیقی لیڈر تھے، تاجر نہیں۔ آج کی دنیا میں ہر طرف تاجر رہنماؤں کا چرچا ہے جن میں حقیقی لیڈر تلاش کرنا اچھا خاصا مشکل کام ہے۔ میرا احساس ہے جب تک دنیا کو حقیقی قیادت میسر نہیں آئی گی تب تک امن، استحکام اور عالمی ہم آہنگی و تعاون کے لیے مطلوبہ فضا نہیں بن سکتی۔ آئیے آئزن ہاور کی زندگی، شخصیت اور اقدامات و خیالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

پیدائش اور ابتدائی زندگی

ڈیوائٹ ڈیوڈ آئزن ہاور (Dwight David Eisenhower) 14 اکتوبر 1890 کو ٹیکساس کے شہر ڈینس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین ڈیوڈ جیکب آئزن ہاور اور انا ہیوگر آئزن ہاور تھے۔ آئزن ہاور کا خاندان جرمن نسل سے تعلق رکھتا تھا اور ان کے آباؤ اجداد نے 18ویں صدی عیسوی میں آمریکا ہجرت کی تھی۔ ان کی ابتدائی پرورش کینساس میں ہوئی تھی، جہاں انہوں نے سخت محنت اور نظم و ضبط کی اہمیت سیکھی۔ یاد رہے ریاست ہائے متحدہ آمریکا دراصل مہاجرین کا وطن ہے۔ یہاں کے سفید فام یورپی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاہ فام افریقی نسلوں سے جبکہ درمیان میں تھوڑے بہت گندمی رنگت کے لوگ ایشیائی اقوام سے بھی ہیں۔ ریڈ انڈین قبائل تاریخی ستم کا شکار ہو کر معدوم ہو چکے ہیں، اکا دکا اگر کہیں باقی بچے بھی ہیں تو وہ آثار قدیمہ کی نشانی کے طور پر نظر آتے ہیں۔

فوجی کیریئر

آئزن ہاور نے 1911 میں ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا اور 1915 میں گریجویشن کیا۔ اگرچہ انہیں پہلی جنگ عظیم میں براہ راست حصہ لینے کا موقع نہیں ملا، لیکن انہوں نے بین الحربی دور میں فوجی تربیت اور منصوبہ بندی میں مہارت حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، انہیں یورپ میں اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے 1944 میں ڈی ڈے (Normandy Invasion) جیسے اہم فوجی آپریشنز کی کمان سنبھالی۔ ان کی قیادت نے نازی جرمنی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ معروف جرمن لیڈر ہٹلر کو نسلی تفاخر کے احساس نے ٹھیک ٹھاک پاگل بنایا ہوا تھا۔ اور ان کا یہی احساس جنگ عظیم دوم کی اہم وجوہ میں سے ایک ثابت ہوا تھا۔

سیاسی سفر

1952 میں، آئزن ہاور نے ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی الیکشن لڑا اور ڈیموکریٹک امیدوار ایڈلائی سٹیونسن کو شکست دے کر آمریکا کے 34ویں صدر بن گئے۔ انہیں 1956 میں دوبارہ صدر منتخب کیا گیا۔ ان کی صدارت (1953–1961) سرد جنگ کے عروج کے دور میں تھی، جب آمریکا اور سوویت یونین کے درمیان شدید کشمکش اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔

اہم پالیسیاں اور اقدامات

1. سرد جنگ کا انتظام:

آئزن ہاور نے "نیو لک” (New Look) پالیسی متعارف کروائی، جس میں روایتی فوج کی بجائے جوہری ہتھیاروں پر زیادہ زور دیا گیا تھا۔ اس طرح انہوں نے NASA (1958) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد خلائی دوڑ میں سوویت یونین سے برتری حاصل کرنا تھا۔ اس طرح "ڈومینو تھیوری” (Domino Theory) کے تحت، انہوں نے ویتنام میں آمریکی مداخلت کی بنیاد رکھی، جو کہ بعد میں ایک طویل متنازعہ جنگ بن گئی۔

2. معاشی پالیسیاں:

ائزن ہاور نے بین الریاستی ہائی وے سسٹم (Interstate Highway System) کی تعمیر کا آغاز کیا تھا، جس نے امریکا کی معیشت اور نقل و حمل میں ایک انقلاب برپا کیا۔ ان کے اقدامات اور پالیسیوں سے معیشت مستحکم رہی، لیکن کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی بعض پالیسیوں نے بعد میں افراط زر کو جنم دیا۔

3. سماجی انصاف:

1957 میں، انہوں نے لٹل راک، آرکنساس میں سیاہ فام طلباء کے ایک اسکول میں داخلے کے لیے فوج بھیجی، جس سے نسلی علیحدگی کے خلاف ایک اہم قدم اٹھایا گیا۔ تاہم، کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہری حقوق کی تحریک کو مکمل حمایت نہیں دی۔

4. بین الاقوامی تعلقات:

آئزن ہاور نے 1953 میں کوریا کی جنگ کا خاتمہ کیا اور اسی سال ایران میں ڈیموکریٹک حکومت کے خلاف سی آئی اے کی مدد سے تختہ الٹنے جیسا اقدام بھی کیا، جو بعض حلقوں میں نہایت متنازعہ رہا۔ اس طرح اُنہوں نے "آئزن ہاور ڈاکٹرائن” (Eisenhower Doctrine) پیش کی، جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں کمیونزم کے خلاف مدد کی پیشکش کی گئی تھی۔ آئزن ہاور اشتراکی نظام اور فلسفے کے بڑے مخالفین میں سے ایک تھے۔

ذاتی زندگی اور شخصیت

آئزن ہاور ایک ایمان دار، منظم، سنجیدہ اور سخت محنتی شخص تھے۔ ان کی اہلیہ میمی جینوڈ آئزن ہاور تھیں، جن سے ان کے دو بیٹے تھے۔ وہ گالف کے بہت بڑے شوقین تھے اور اکثر و بیشتر اپنے فارغ وقت میں اس کھیل سے دل بہلاتے تھے۔ ان کی شخصیت میں سادگی اور عاجزی کے اوصاف کافی نمایاں تھی، جس کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔ ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ "آپ کی کامیابی اور مقبولیت کی اہم سبب کیا ہے”؟ جواب دیا "روزانہ پانچ منٹ کی خود احتسابی” وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ”روزانہ پانچ منٹ، بیڈ پر جانے سے قبل اپنی باتوں اور کاموں کا باقاعدگی سے جائزہ لیتا ہوں اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ میری باتوں اور کاموں سے کسی کو نقصان یا صدمہ تو نہیں پہنچا؟۔ بس یہ اہتمام میرے طرزِ عمل کو ہموار اور قابلِ قبول رکھتا ہے”۔

انتقال اور ورثہ

آئزن ہاور 28 مارچ 1969 کو واشنگٹن ڈی سی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ انہیں کینساس میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی میراث میں ایک مضبوط قومی دفاعی نظام، جدید ترین انفراسٹرکچر، سماجی انصاف کی بھرپور حمایت اور سرد جنگ کے دوران آمریکا کی یکسوئی سے قیادت کرنا شامل ہے۔ تاہم، ان کے بعض فیصلے، جیسا کہ ویتنام میں مداخلت اور جا بجا خفیہ آپریشنز، تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔ نہر سوئز کے تنازعے پر جب فرانس اور جرمنی نے مل کر مصر پر حملہ کرنا چاہا تو اس وقت صرف اور صرف آئزن ہاور درمیان میں حائل ہوگئے تھے، فرانس اور جرمنی کو مجبور کیا کہ وہ مصر پر حملے سے باز رہیں۔

ڈیوائٹ آئزن ہاور ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی فوجی مہارت اور سیاسی دانشمندی سے آمریکا کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ ان کی پالیسیوں نے آمریکا کو سپر پاور بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کے کچھ اقدامات نے دنیا بھر میں تنازعات کو بھی جنم دیا۔ ان کی زندگی اور کارناموں میں آج بھی تاریخ کے طالب علموں، سیاسی کارکنوں اور تجزیہ کاروں کے لیے کئی اہم سبق پوشیدہ ہیں۔

آئزن ہاور ایک عظیم فوجی لیڈر اور دانشمند شخصیت تھے۔ ان کے اقوال حکمت اور رہنمائی سے بھرپور ہیں۔ آئیے یہاں ان کے کچھ مشہور اقوال پیش کرتے ہیں:

1. "منصوبہ بندی ضروری ہے، لیکن منصوبوں پر سختی سے جمے رہنا ایک احمقانہ فعل ہے۔”

2. "قیادت کی تخلیق کا فن یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اس مقصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ کریں جو آپ چاہتے ہیں، کیونکہ وہ خود بھی اسے چاہتے ہیں۔”

3. "تاریخ آزاد لوگوں کو کوئی مطلق ضمانت نہیں دیتی، سوائے اس کے کہ وہ اپنی آزادی کی حفاظت خود کریں۔”

4. "کامیاب فوجی قیادت کے لیے صرف ایک لفظ سب سے اہم ہے: اعتماد۔”

5. "ہر بندوق جو بنائی جاتی ہے، ہر جنگی جہاز جو لانچ کیا جاتا ہے، ہر راکٹ جو فائر کیا جاتا ہے، آخر میں بھوک اور بے روزگاری کے خلاف ایک چوری ہوتا ہے۔”

6. "ہماری طاقت ہماری فوجی طاقت سے کہیں زیادہ ہماری اقدار اور ہمارے مقاصد کی مضبوطی میں ہے۔”

7. "امن کے لیے کام کرنا کوئی کم خطرناک نہیں ہے۔”

8. "سیاستدان ماضی کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ لیڈر مستقبل بناتے ہیں۔”

9. "کوئی بھی جنگ اچھی نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ وہ لڑی ہی نہ جائے۔”

10. "حقیقی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب ہم ان چیزوں پر سرمایہ کاری کریں جو انسانیت کے لیے بہتر ہوں، نہ کہ تباہی کے لیے۔”

ایک لیڈر کی اصل خوبی ان کی اہلیت، بصیرت، جرآت، اور استقامت ہوتی ہے نہ کہ شہرت اور دولت وغیرہ۔ دنیا میں بے شمار اقوام اور افراد محض دولت اور شہرت سے دھوکہ کھا کر نااہل اور کم عقل لوگوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور یوں بے تحاشا نقصانات اور سانحات کا باعث بن جاتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ لیڈروں میں اصل خوبیوں کو تلاش کریں نہ کہ محض شہرت یا دولت کی بنیاد پر حمایت کے لیے اٹھیں۔ ایسا کرنا تمام خرابیوں کی جڑ ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے