خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر کہ اُس نے ہمیں اس جنگ میں بھارت کے خلاف فتح نصیب فرمائی۔ ہم نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے، اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، اور اُس سے ناک سے لکیریں کھنچوا دیں۔ یہ عظیم الشان فتح اور دنیا کے سامنے ہماری سربلندی صرف اس لیے ممکن ہوئی کہ ہمارے پاس ایک پوشیدہ جنگجو، ماہرِ فنونِ حرب موجود تھا۔
یہ جنگجو، یہ ماہرِ فنونِ حرب ہمارے لیے، پوری قوم کے لیے، اس ملک بلکہ اُمّتِ مسلمہ کے لیے صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، خوارزم شاہ، امیر تیمور، سلطان نورالدین زنگی، سلطان الپ ارسلان، سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور حتیٰ کہ ٹیپو سلطان کا بھی نعم البدل ثابت ہوااور خفیہ ایسا کہ ایکسٹو کو بھی مات دے۔
اگر یہ جنگ نہ چھڑتی، اگر اس میں ہمیں فتح نصیب نہ ہوتی، تو شاید ہمیں کبھی معلوم نہ ہو پاتا کہ اس کم گو، صلح جُو، شرمیلے سے دکاندار قسم کے سادہ منش سیاست دان کے اندر ایک عظیم سپہ سالار، جنگی حکمتِ عملی کا ماہر، اور میدانِ جنگ کا ایک سورما بھی چھپا بیٹھا ہے۔
تاریخ کے تمام فاتحین اپنے اپنے وقت میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ کر رخصت ہو گئے، مگر کسے معلوم تھا کہ فتوحات کا ایک تاج ابھی باقی ہے—جو رائیونڈ میں اس ماہرِ جنگ و جدل کے سر پر رکھا جانا تھا۔
جیسے ہی جنگ کے بادل چھائے، ملک کے طول و عرض میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر اصل کہانی تو تب شروع ہوئی جب اس عظیم جنگجو نے اپنے نہایت ذاتی اور خصوصی جنگی نقشے کھولے۔ اگرچہ اُن پر کہیں کہیں دال یا چکن کڑاہی کی چکنائی کے دھبے لگے ہوئے تھے، لیکن یہ وہ مخصوص جنگی چالوں کے نقشے تھے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے تھے۔
اس ماہرِ تیر و تفنگ جنگجو نے یہ تمام نقشے افواجِ پاکستان کے سربراہ کے سامنے کھول کر رکھ دیے، اور انہیں یہ تمام چالیں نہایت تفصیل سے ازبر کروا دیں۔ سادہ زبان میں ایسی پُراثر، جوشیلی، ولولہ انگیز گفتگو کی کہ پوری فوج "ون پیج” پر آ گئی—اور اُسی صفحے پر اصل حکمتِ عملی بھی درج تھی۔
فوج کی مکمل ترین رہنمائی کر کے اُسے میدانِ جنگ میں روانہ کرنے کے بعد بھی یہ بہادر سورما ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا، بلکہ خود بھی عملی طور پر سرگرم ہو گیا اور اپنی زیرِ نگرانی رائیونڈ میں دشمن کے خلاف اجتماعی بددعاؤں کا باقاعدہ بندوبست کیا۔
قربان جاؤں اس بہادر شخصیت کی سادگی، عاجزی، انکساری اور میانہ روی پر۔ اس نے اپنے رُفقا اور فوج کو سختی سے ہدایت کی کہ اُس کی جنگی صلاحیتوں کا عوام میں ذکر نہ کیا جائے، اور ان معاملات میں اسے لو پروفائل ہی رہنے دیا جائے۔ مگر بھلا ہو اُس کے رُفقا میں سے ایک نیک دل خاتون—جن کا نام عظمیٰ بخاری ہے—کا، جنہوں نے عوام پر یہ راز افشا کر دیا۔
لوگ تو پہلے ہی اس عظیم سیاست دان کے گرویدہ تھے، لیکن جب اُن کی اس نئی صلاحیت کا پتہ چلا، تو وہ مزید دیوانے ہو گئے۔
اگر یہ جنگ نہ ہوتی، اور اگر عظمیٰ بخاری ہمیں نہ بتاتیں، تو ہم کبھی نہ جان پاتے کہ یہ سیاست دان صرف ’’قائدِ جمہوریت‘‘ ہی نہیں، بلکہ ’’قائدِ جنگ‘‘ بھی ہے۔
فتوحاتِ اندلس، فتوحاتِ سندھ، فتوحاتِ ہند کے ساتھ ساتھ اب تاریخ میں فتوحاتِ رائیونڈ کو بھی سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
آئندہ نسلیں جان سکیں گی کہ جب دشمن کا غرور خاک میں ملایا گیا، تو اس کے پیچھے ایک شخص تھا… جو خفیہ حکمتِ عملی کے تحت خاموش بیٹھا تھا لیکن بہت کچھ کر رہا تھا۔
فاتحین کی صف میں ایک اور نام کا اضافہ ہوا: فاتحِ ہند و سپہ سالارِ رائیونڈ۔