ہم اہل حرف کے پندار کے ثناء گر ہیں

انسان کے جذبات کا پہلا منظم اظہار بلاشبہ شاعرانہ عبارت آرائی تھی۔یہ اظہارعین ممکن ہے کسی ضرورت کے تحت کیا گیا ہو یا کسی خوبصورت منظر سے متاثر ہو کر بے ساختہ داد دی گئی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ہمیشہ اپنے جذبات کے موثر اظہار کے لیے مختلف پیرائے اختیار کرتا رہا ہے ۔خوب صورتی سے متاثر ہونا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اگر یہی خوبصورتی مترنم، مقفیٰ اور مسجع اور موزوں جملوں میں ہو تو ہم اسے شاعری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس دور میں اپنے جذبات اور ذوقِ جمالیات کا زیادہ تر اظہار نظم یا غزل میں کیا جا رہا ہے۔غالب اور اقبال نے با لترتیب غزل اور نظم کو اتنا ثروت مند کر دیا ہے کہ اب اس نے عشق و محبت سے لے کر تصوف ،طریقت، ابلاغ اور مزاحمت تک اپنا دامن وسیع کر دیا ہے۔ ان سطور میں جس صنف شاعری کے بارے میں گفتگو ہو گی وہ غزل ہے اور غزل کی روایات کا احترام کرنے والے شخص سے وابستہ ہے۔ ایسا شخص جو اپنی اقدار سے کماحقہ آگاہ ہے اور اپنی تہذیب سے دیارِ غیر میں رہ کر بھی جُڑا ہوا ہے۔ اس شخص کوادبی دنیا ناز ؔ مظفرآبادی کے نام سے جانتی ہے۔

ناز مظفرآبادی کواپنے دیس کی مٹی کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی والہانہ عشق ہے۔ اس جستجو میں وہ برسوں سے لفظوں کی مالا پروتا اور غزل کے گیسو سنوارتا چلا آ رہا ہے۔”بہار آنے تک”اس کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس کے کئی نمائندہ شعروں میں سے یہ شعر:

کلی کلی میں چمن میں نکھار آنے تک
خزاں سے جنگ رہے گی بہار آنے تک

naz3

نازؔ کے تحریکِ آزادیِ کشمیر اور آزادیِ کشمیر پر غیر متزلزل ایمان کا عکاس ہے۔آج”ہم سخن”ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس دوران شاعر خیال و فکر کی جن جن گھاٹیوں سے گزرا ، تجربات کے جتنے قلزم عبور کیے ،آگہی کے جتنے صحراوں کی ریت چھانی ،دورِ نا مہرباں اور شہرِ ناپُرساں میں جتنے سانحات، الَمیوں اور کرب کی کیفیات سے دوچار ہوا ،ان سب داستانوں کا عکس اُس کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ناز مظفرآبادی نے ادب کی سلطنت میں اپنے مقام کے لیے اتنی ریاضت کی ہے کہ آج اُس کا شمار ادبی قبیلے کے معتبر ناموں میں ہوتا ہے۔ایک مغربی مفکر نے کہا تھا کہ انسان دوسروں سے لڑے تو خطیب اور خود سے لڑے تو شاعر کہلاتا ہے۔ناز ؔ کی خود سے معرکہ آرائی ہمیں "ہم سخن”کے روپ میں بخوبی نظر آتی ہے۔نازؔ کی فیاضی ملاحظہ فرمائیے کہ وہ برسوں کی محنت ،مشقت اور ریاضت، وحشتِ دل کے تقاضوں اور طلبِ آبلہ پائی کی تمناوں کے بعد کمائے حرفوں کے حقوق بھی انتساب کے طور پر کسی کے نام کرتا ہے۔

نازؔ شہر زلیخا سے دامنِ دل بچا لانے کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ یوسف بھی نہیں تھا۔ شاید نازؔ تک شہنشاہِ مزاح مشتاق احمد یوسفی کا یہ قول نہیں پہنچا کہ پیغمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے لیکن مُشتاق و آرزو مند بھی ہے۔سلمیٰ ، عذرا،سلطانہ اور زلیخا کو اشعار میں گھسیٹ لانا شعرا کا مرغوب مشغلہ ہے لیکن یہ قطعی طور پر فرضی استعارے ہوتے ہیں۔یہ شعرا ء کی نا آسودہ آرزؤں کا اظہار ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر شاعر محبوبہ کے لیے قیس بنا پھرے۔ کچھ شعرا کی بیویاں ہی اُن کی محبوبائیں ہو تی ہیں لیکن ایسےVagitarianشعرا کو حلقہ ءِ سخنوراں میں معرکہ آرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ نالائق سمجھا جاتا ہے۔ہمارے ادھیڑ عمر شعرا اُس جنسی جھٹ پٹے کی طرف بین السطور اور کبھی کبھی بین الستور واضح اشارے کر تے نظر آتے ہیں جب بقول یوسفی دھوپ ڈھل جاتی ہے مگر دھرتی بھیتر بھیتر میٹھی میٹھی آنچ میں تپتی رہتی ہے۔ناز مظفرآبادی ان تمام شاعرانہ علتوں سے منزہ و مبرا ہے۔

دی الکیمسٹ کے مصنف رقمطراز ہیں”صحرا لوگوں کے دلوں کو تصور سے بھر دیتا ہے”۔ ناز ہمالیہ کے برفاب دامن سے جب ہجرت کی منزلوں پہ منزلیں مارتا عرب کے صحراوں میں اُترا تو صحرا کی وسعت، صحرا کے سرابوں، عذابوں اور با لخصوص تنک ظرفی نے اس کے شاعرانہ شعور کے ساتھ خوب چھیڑ چھاڑ کی اس لیے ناز کی شاعری میں اس قسم کی کیفیات جا بجا نظر آتی ہیں۔ہجرت کا دکھ، روزگار کے آلام،اپنوں سے دوریاں، احساسِ جہاں گردی و آوارگی اور اپنی مٹی سے بچھڑنے کے قلق کی مہک جا بجا ناز کے اشعار میں ملتی ہے۔

پرائے دیس میں فکرِ معاش کرتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں سہارے تلاش کرتے ہوئے

ہجرت، جبر اور قیدو بند کے حالات میں ایک شاعر اپنے تخلیقی شعور کی ارفع سطح پر ہوتا ہے۔جبر، قہر، مہر، بھوک اور ہجر کے تمام تجربات کو ایک حساس شاعر اپنی تخلیق کی اساس بناتا ہے۔ناز کی شاعری میں اس کے بھی معیاری نمونے دستیاب ہیں۔ناز جبر اور ہماری بے عملی کی یوں تصویر کھینچتا ہے۔

خلافِ جبر و استبداد باتیں سب نے کیں لیکن
خلاف جبر و استبداد ہم نکلے نہ تم نکلے
یہ سب کی آرزو تھی دودھ کی نہریں بہانی ہیں
اٹھا کر تیشہءِ فرہادہم نکلے نہ تم نکلے

ناز کے نزدیک محبوب کی اداسی پورے عالم کو یاس کی چادر میں لپیٹ دیتی ہے۔
ساری دنیا اداس لگتی ہے
آج وہ بھی اُداس ہے شاید

ناز کے نزدیک محبت محض شاعرانہ تعلّی نہیں بلکہ زیست کا عُنوان ہے۔ فرہاد، مجنوں، رانجھا، وامق اور پنوں اُسکے نزدیک محبت کی روشن منارے ہیں لیکن وہ سب ناز کی بارگاہِ محبت کی عظمت و شکوہ کے معترف بھی ہیں۔
محبت میں بالآخر ایک ایسا بھی مقام آیا
مجھے فرہاد ، رانجھے اور مجنوں کا سلام آیا

اب اللہ بہتر جانتا ہے ناز اس مقام پر کتنی دیر استقامت کے ساتھ کھڑا رہا۔ نامہ بر کس طرح جان جوکھم میں ڈال کر وقت کے کیدؤوں سے آنکھ بچا کر اُس تک پہنچا اور کس انعام کا مستحق ٹھہرا یہ سب بین السطور ہے اور باقی مشقت ہمارے قارئین کے ذمے ہے۔

نازؔ کا اصل میدانِ سخن غزل ہے لیکن زیرِ نظر مجموعہِ کلام میں چند نظمیں بھی شامل ہیں۔جس میں شہادت کے عنوان سے ایک نظم اس المیے کی غماز ہے جس سے ہمارا سماج ان دنوں گزر رہا ہے۔محبوب، مغضوب،معتوب، ظالم، مظلوم ، قاہر اور مقہور کا مقام گزرتے لمحوں کے ساتھ بدل رہا ہے۔تیزی سے بدلتے حالات شاعر کی کھتارسس کو بھی مہمیزدیتے ہیں۔نازؔ کے کئی اشعار کا پس منظر بھی یہی حالات ہیں۔

یہ سانحہ بھی ترے عہدِ بے امان کا ہے
کسی کو مال کا خطرہ کسی کو جان کا ہے

مجھ کو معلوم تھا انصاف کی قیمت کیاہے
میں کوئی عدل کی زنجیر نہیں چاہتا تھا

نازؔ تلمیح کو بھی خوبصورتی سے اپنے اشعار کی زینت بناتا ہے

کسی کو چھین لیا بڑھ کے ماں کی جھولی سے
کسی کو ناز ؔ عدو کی اماں میں رکھا گیا

ہجرت،کرب، گردشِ روزگار اور آلامِ مسلسل کا مآل ناز کے ہاں یوں شعری پیکر میں ڈھلتا ہے

یہ کون سی منزل ہے خدا جانے جنوں کی
اب کوئی بھی دکھ ہو ہمیں رونا نہیں آتا

ناز ؔ کے چند عمدہ شعر پیش خدمت ہیں؛

نجانے اُس کا کہاں تذکرہ ضروری ہو
زبان شعر ہمہ وقت باوضو رکھیو

یوں شام ہی سے ترا انتظار رہتا ہے
مریض جیسے نمودِ سحر کو دیکھتے ہیں

یونہی مانوس آوازیں سنائی دیتی ہیں
کسی نے جانے والے کو پکارا بھی نہیں ہوتا

تلاشِ رزق میں مجھ کو زمیں پہ بھیج دیا
جو میرا رزق تھا وہ آسماں پہ رکھا گیا

ان اشعار کے علاوہ وہ تمام اشعار جن کا تذکرہ پروفیسر سحر انصاری نے کتاب کے دیباچے میں کیا ہے، فن و تخیل کے بلاشبہ عمدہ نمونے ہیں۔
ناز کے شاعرانہ تدبر، تخیل اور فن کے حوالے سے وقیع رائیں کتاب کے شروع میں موجود ہیں۔ ہم نازؔ کے مدح سراوں میں نام شامل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے ہم نے مضمون لکھنے کی گوارا مشقت کی سعادت حاصل کی۔ ہم سخن ایک باوقار شاعر کا شعری اثاثہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر فن پارے میں کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں اور یہی چیز فن کے ارتقاء کا باعث ہوتی ہے۔میری تحریر کا محدود کینوس نازؔ کی فنی مہارت کے احاطے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔

نازؔ شعری بدعات کے قریب بھی نہیں پھٹکتا اور نہ ہی وہ شعر و شاعری میں مکروہ تجربات کا قائل ہے اور نہ ہی اپنی رائے دوسروں سے بزورِدوستاں منوانے پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے اوپر تنقید کرنے والوں پر اپنے حاشیہ برداروں کی مدد سے سب و شتم کے پتھر برساتا ہے۔اپنے ہم عصر شعراء کے برعکس ناز مظفرآبادی کی ذات کایہ ایک خوبصورت ترین پہلو ہے۔نازؔ چپ چاپ پوری تن دہی سے بصد” ناز” ادب کی خدمت میں رات دن مصروف ہے۔ عمدہ بات یہ ہے کہ نازؔ نے "ہم سخن”میں عروسِ غزل کے بہت ناز اُٹھاے ہیں اوراس کے دراز گیسو سنوارنے میں محنت شاقہ سے کام لیا ہے۔اُس نے اپنے خیالات کے ابلاغ کے لیے غزل کے گھونگھٹ کا تقدس مجروح نہیں ہونے دیا۔ایک ایک شعر کی نمو میں نازخونِ دل صرف کرتا نظر آ رہا ہے۔ناز مطفرآبادی کی شاعری اقبا ل کے اس شعر کی عمدہ تفسیر ہے۔

رنگ ہو کہ خشت و سنگ چنگ ہو کہ حرف و صوت
معجزہِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے