مگر وہ سچائی ہے کہا ں؟ ہر چیز گرد و غبار میں چھپ گئی ۔ایک مچھلی بازار ہے ،کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؎
کورے کاغذ کی سپیدی پہ ترس آتاہے
نامۂ شوق میں لکھنے کو رہا کچھ بھی نہیں
پھر مارٹن لوتھر کنگ کاایک قول یا دآیا: جدوجہد جاری رہنی چاہیے "Until justice rolls down like water and righteousness like a mighty stream” یہاں تک کہ انصاف پانی کی طرح بہے اور صداقت تیز و تند ندی کی طرح ۔
میز پر پڑی کتاب کو میں نے بے دلی سے اٹھایا لیکن اس کا ورق دیکھا تو حیران رہ گیا۔علامہ صدیق اظہر کہتے ہیں کہ صبح سویرے کا وقت تو کتاب کے مطالعے کا ہوتا ہے ۔ اخبار نویس کی مجبوری یہ ہے کہ ایک پورا پلندا پڑھنا ہوتاہے کہ موضوع کا انتخاب کیا جا سکے ۔ ان دنوں مگرفیض ؔ یاد آتے ہیں ؎
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ کی شبنم
اللہ کا شکر ہے کہ دل اب بھی دکھتا ہے مگر اظہار سے جی بیزار ہونے لگا۔ ایک ہی بات کتنی بار کہی جائے۔ مرحوم زیڈ اے سلہری یاد آئے۔ ایک ہی خیال کو بار بار پیش کرتے اور کبھی نہ اکتاتے ۔ 1989ء میں ان کا انگریزی کالم اردو اخبار میں چھپا کرتا ۔ مجھے اس کا ترجمہ کرنا ہوتا۔ وہ امتحان کا دن ہوتا۔ تب انگریزی اور بھی ناقص تھی ۔ قدیم زبان وہ لکھا کرتے ۔ فکر یہ لاحق رہتی کہ بے وفائی متن کے ساتھ نہ ہو۔ جگر لہو کرنا پڑتا کہ دونوں زبانو ں کے مزاج میں فرق بہت ہے ۔ ایک دن عرض کیا: حضور! آپ بہت مشکل میں ڈالتے ہیں ۔ کیسی پتے کی بات کہی : کوئی لفظ آسان ہوتاہے نہ مشکل‘ بس موزوں تر ۔ نصف صدی بیت گئی ، موزوں لفظ کی تلاش میں ۔ تازہ موضوع کی تلاش میں ۔ اس بے بہا شاعر مجید امجدؔ نے کہا تھا:
عمر اسی الجھن میں گزری
کیا شے ہے حرف و بیاں کا
عقدۂ مشکل
صورتِ معنی ؟معنیِ صورت؟
اکثر گرد سخن سے نہ ابھرے
کتنی چھنا چھن ناچتی صدیاں
کتنے گھنا گھن گھومتے عالم
وادیٔ فکر کی لیلائوں کے
جھومتے محمل
طے نہ ہوا ویرا نۂ حیرت!
چالیس برس ہوتے ہیں ۔ فیض احمد فیض ؔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بنگلہ دیش گئے ۔ انٹرویو کی ان سے درخواست کی ۔ وہ کہاں مانتے تھے ۔ اصرار ہوا تو اگلے دن وہ کلام عنایت کیا، جس کا ایک مصرعہ ان کی سوانح کا عنوان بنا۔ ”ہم کہ ٹھہرے اجنبی ‘‘۔ دفتر پہنچا تو دو بار ان کا فون آچکا تھا ۔ فرمایا: فلاں مصرعے میں ” بے درد ‘‘ کو ” بے مہر ‘‘ سے بدل دو۔ گزارش کی ، ”بے درد‘‘ کم موزوں تو نہیں ۔ ارشاد کیا: وہ ایک پہلے مصرعے میں برتا جا چکا ؎
تھا بہت زہر آفریں دردِ شراب دوستی
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
اور وہ زخم جگاتا ہوا مصرعہ : خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ۔ عرض کیا: لکھنے کے بعد بھی کیا غور و فکر کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ کہا: جی ہاں : لفظ کو چمکانا پڑتا ہے۔خیال کو ٹٹولنا ہوتاہے ۔ کیا لوگ تھے صاحب! میرؔ صاحب نے کہا تھا ؎
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
یہ 1979ء کے ویران دن تھے ۔ امریکی صدر فرینکلن کے نام ریڈ انڈین سردارچیف سیٹل کا ایک خط نظر پڑا۔ چار پانچ سو الفاظ ۔ ساری شام بیت گئی ، تشفی نہ ہوئی ۔زمین پر لکھی اس نظم ، شالیمار باغ کے نواح میں ۔ اگلاپورا دن بھی بیت گیا۔
"Where are the eagles, they have gone. This is the end of life and beginning of survival.
”عقاب کہاں ہیں ، وہ تو ہجرت کر گئے۔ زندگی ختم ہوئی ، اب تو محض جینا ہے ۔‘‘…اور یہ کہ ”اگر پتوں کے جھومنے بجنے کی آواز سنائی نہ دے ۔ چہرے اگر تازہ ہوا کا لمس محسوس نہ کریںتو زندہ رہنے کے کیا معنی ہیں ؟ جب جنگلوں کی مقدس خاموشی آوازوں کی کثرت اور بھرمار سے بھر جائے گی تو سکھ کہا ں رہے گا؟ ‘‘
گرامی قدر استاد نے کہا: لکھنا یہ ہے کہ آدمی لفظ کو مرضی سے برت سکے۔ والٹیئر کا قول دہرایا”Every word of a writer is an act of generosity”۔ تخلیق کار کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہے ۔ میرؔ صاحب، اسد اللہ غالب ؔ، فیض احمد فیضؔ اور سب سے بڑ ھ کر اقبالؔ۔ کل کسی نے پوچھا: تاریخ کی بہترین شاعری؟ عرض کیا: محدود سا مطالعہ ہے ۔ عمر بھر کے تجربے کا حاصل البتہ یہ ہے کہ دورِ جاہلیت کی عرب شاعری یا پنجابی کے چند شعرا۔ چشمہ سا پھوٹ بہتا ہے ۔ ایک ایک لفظ کی ہیرے کی طرح کئی جہات۔ ارے صاحب ہیرا کیا ہے ۔ لفظ اس سے زیادہ دمکتا ہے ۔ 1981ء میں ایک آزاد نظم لکھی تھی :
لفظوں کے ویران باطنوں میں
مفہوم و معانی کی مشعلیں جلاتے شاعرو
تم پر یہ راز کب کھلے گا
جہاں جہاں زندگی آزاد ہے
وہ شہیدوں کی سخاوت میں زندہ ہے
ملک معراج خالد ایک عجیب آدمی تھے ۔ سیاست روایتی کرتے، لہجہ دھیما رکھتے، لباس اجلا پہنتے اور لاہور کی سڑکوں پہ پیدل چلا کرتے ۔ 1996ء میں نگران وزیرِ اعظم ہوئے تو ناچیز کو یاد کیا ۔ ایوانِ وزیرِ اعظم پہنچا تو بولے: حلف اٹھانے سے پہلے میں تمہیں ڈھونڈتا رہا۔ اپنے گائوں آنے کی دعوت دی جہاں غریب بچوں کے لیے ایک مثالی سکول انہوں نے تعمیر کیا تھا اور ایک ماں کی طرح اس کی پرورش کی تھی ۔ ایک دن اتفاقاً کہیں ملاقات ہوگئی ۔ کہا : میں حیران ہوں ۔ کہتا کچھ ہوں ، اخبارات میں چھپتا کچھ اور ہے ۔ یہ لوگ کس طرح لکھتے ہیں ۔ عرض کیا: جس طرح کھڑے ہو کر پیشاب کیا جاتاہے ،گلی کی نکڑ پر ۔ جی چاہا ، فیض ؔصاحب کا شعر انہیں سنائوں مگر سنا نہ سکا کہ ایاز قدر خود بشناس ؎
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
جی اب اچاٹ ہے۔ زندگی میں پہلی بار ۔ ارادہ کرتا ہوں کہ حرف و بیاں کی ا س دنیا کو خیر باد کہوں ۔ پھر شاعر یاد آتاہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
ساری زندگی جس کام سے محبت کی، وہ ایک سعیٔ رائیگاں لگتاہے ۔ اللہ کا شکر ہے خوش فہمی پہلے بھی کچھ زیادہ نہ تھی ۔ پڑھنے والوں کی محبت اور اتنا ہی کچھ کہہ ڈالنے کی بے تابی نے عمر بھر سہارا دیے رکھا۔ اب طبیعت البتہ اوبنے لگی ہے ۔ عمر بھر ایک خیال کو شعار کیے رکھا۔ لکھنے اور بولنے والے کو حق حاصل نہیں کہ سننے اور پڑھنے والے کو بور کرے ۔ عبارت اگر خود لکھنے والے کو خوش نہیں آتی تو قاری کا وقت کیوں برباد کرے ؟
تیس برس ہوتے ہیں ، ایک محترم خاتون نے کہا: تمہارا کالم پڑھا تو آنسو بہہ نکلے ۔ دوسری یا تیسری بار یہ جملہ انہوں نے کہا تو عرض کیا: لکھنے والے کے دل پر قیامت ٹوٹی تو درد کی دولت لفظوں کو عطا ہوئی ۔ اس کی یہ دین ہے ، جسے پروردگار دے، جب دے۔ ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء۔پروردگار کے علم میں سے بس وہ اتنا ہی پاتے ہیں،جتنا کہ وہ چاہے۔
درد کی وہ دولت کیا ہوئی ؟ فیروز شاہ گیلانی نے ا مریکہ کے سفرنامے میں ”عوامی حقوق کی جدوجہد کے عجائب گھر ‘‘ میں لکھا ایک جملہ نقل کیا ہے ۔ "We must take sides, neutrality helps the oppressor”۔ ہمیں سچائی کا ساتھ دینا چاہیے ۔ غیر جانبداری ظالم کی مدد کے مترادف ہے ۔
مگر وہ سچائی ہے کہا ں؟ ہر چیز گرد و غبار میں چھپ گئی ہے ۔ چیخ و پکار ہے ، مچھلی بازار ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سچائی کہاں ہے کہ پانی کی طرح بہے ؎
کورے کاغذ کی سپیدی پہ ترس آتاہے
نامۂ شوق میں لکھنے کو رہا کچھ بھی نہیں
بشکریہ روزنامہ دنیا