فَہم واِدراک سر بہ گریباں ہے کہ ریاست کی ساری جَدوجہد اور تگ وتازِ حَربیانہ جو درحقیقت دھشت گردی کے خاتمے کے لئے ہے، اُسے عنوان انتہاء پسندی کے خاتمے کا دیا گیا-
انتہاء پسندی ایک طرزِ فکر کا نام ہے، ایک مائنڈ سیٹ کا لوحیہ- اس کا توڑ "ضربِ عَضب” سے نہیں "ضربِ فِکر” سے ہوگا-
اس کے لئے وسیع بنیادوں پر صبر آزما مساعی کی ضرورت ہے- طویل المیعاد مگر انتہائی مُوثر اور نتیجہ خیز اقدامات کی-
ضربِ عضب سے دھشت گرد عناصر کا "وجود” ملیامیٹ ہوجائے گا، مگر جو زہر انتہاء پسندی کا دماغ میں گھول کر ڈالا گیا، وہ بدستور نئے دھشت گرد پیدا کرتا رہے گا-
یوں دھشت گردی کا عفریت پھن پھیلائے اس معاشرے کو کھوکھلا کرتا رہے گا اور ریاست اپنا مالیہ "ضربِ عضب” کے بے پیندے کی بالٹی میں جَھونکتی رہے گی-