کامک کرنٹ افیئر شو

سال 2009 جب پاکستان ایک طرف غیر یقینی سیاسی اور معاشی حالات کا شکار تھا تو دوسری طرف ا سے اندرونی دہشتگردی کے ساتھ امریکی ڈرون کا سامنا تھا ۔نئی اتحادی حکومت کمزور بھی تھی اور مشرف کی حکومت کے چھوڑے مسائل کا بار بھی تھا۔

لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آ گیا تھا اور آئی ایم ایف کے قرضے اور نوٹ چھاپنے کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے لئے امریکی پالسیوں کی محتاج تو قانون سازی وکلاء تحریک کی وجہ سے معطل، اُسی وقت دہشتگردی کے خلاف جنگ عراق سے افغانستان منتقل ہو رہی تھی، بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اور اندرونی مسائل ؛ پاکستانی میڈیا دن رات پریشان کن خبریں اگل رہا تھا۔

کہیں خود کش حملے کے بعد حملہ آور کا سر ملنے کی خبر تو کہیں بچے برائے فروخت کی اطلاع، فیصل آباد کے مزدوروں کی ہڑتال اور تاجروں کی خود کشی کی دھمکی ، ٹاک شوز میں چنگاڑتے ، چیختے چلاتے سیاست دان۔

عام آدمی کے اصل مسائل کہیں پسِ پشت چلے گئے۔ ایسی ہی افراتفری میں ایک چینل نے ایک نیا حالات حاضرہ کے پروگرام کا آغاز کیا ۔ جس میں آفتاب اقبال بطور دانشور اپنی آفتابیاں دکھاتے، ناجیہ بطور اینکر اور سہیل احمد بطور عزیزی شامل تھے ۔ روایتی حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں کی نسبت عزیزی ایک حقیقی پاکستانی عام آدمی تھا جسے امریکہ کی جنگ سے غرض تھی نہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے واسطہ، اسے فکر تھی کہ ٹماٹر آلو پیاز کی بڑھتی قیمت سے ، لوڈشیڈنگ سے اور پٹرول سے ،

اسے پرواہ نہیں تھی کہ مشرف نے ڈرون حملوں کی اجازت دی ہے یا نہیں بلکہ وہ موبائل چھیننے والوں سے خائف تھا، اس کے بے شمار مسائل میں ایک اہم مسئلہ اسکا سکوٹر تھا، عزیزی کی زبان بھی عوامی تھی( شیخ رشید والی عوامی نہیں عام پاکستانی کی سادہ زبان) ۔ اس عزیزی نے راتوں رات شہرت پائی اور” حسبِ حال” ثقیل قسم کے ٹاک شوز میں ایک ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔

جہاں لوگ آفتاب اقبال کی ” دانشمندانہ ” گفتگو غور سے سنتے وہیں عزیزی کے معصوم اور سادہ سوالوں پر لوگوں کو قہقے لگاتے میں نے خود دیکھا بھی ہے۔عزیزی اتنا مشہور پوا کہ سنجیدہ ٹاک شوز میں بھی اسے عوامی نقطہ نظر کے لیے دعوت دی جانے لگی۔

تقریباََ ایک سال بعد آفتاب اقبال نے حسبِ حال کو چھوڑ کے جیو میں اسی مرکزی خیال پہ ایک اور شو کا آغاز کیا جس میں امان اللہ، ہنی البیلا سلیم اور شوکت جسے کامیڈین شامل تھے جو سہیل احمد کی طرح سٹیج کے منجھے ہوئے اداکار تھے ، جو ایک طرف سٹیج کے مخصوص انداز کے ماہر تو دوسری طرف ٹی کی حدود سے بھی واقف تھے۔

اس پروگرام نے بھی لوگوں کے ویک اینڈ کو اپنی جگتوں سے زعفران زار بنا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب حکومت نے سٹیج پہ مکمل پابندی لگا دی تھی ، اور سٹیج اداکاروں کی حالت بہت ابتر تھی ،مزید یہ کہ ببو برال اور مستانہ جیسے لیجینڈ کامیڈین کی کسمپرسی کی حالت میں انتقال نے سب کو سوگوار کیا ہوا تھا۔ ایسے وقت میں آفتاب اقبال کے ایسے اقدام کو سنجیدہ حلقوں نے بھی سراہا ۔

عزیزی کی طرح یہ کردار اتنے مہذب تو نہیں تھے لیکن ان کی جگتیں معیاری اور ٹی وی کے مطابق ایسی تھیں کی پوری فیملی ساتھ بیٹھ کے لطف اندوز ہوتی بلکہ ہنستی تھی۔یہ فارمولا ہٹ ہوا تو ہر چینل نے کچھ سٹیج کے اداکار، ایک بظاہر دانشمند اور ایک بہت ہنسنے والی اینکر کا اہتمام کر لیا۔لیکن چائنا کی اشیاء کی طرح نقل تو بالکل و یسی تیارکر لی لیکن معیاربرقرار نہ رکھ سکے۔اب سستی جگتیں اتنی غیر معیاری ہیں کہ بعض چینلز پہ پوری فیملی کا ساتھ بیٹھ کے دیکھنا بھی ممکن نہیں، ایک چینل میں تو اینکر صاحبہ ہنسنے کے ساتھ ساتھ ایک سیگمینٹ میں سٹیج کی طرح رقص بھی پیش کرتی ہیں ریٹنگ ان پروگراموں کی بھی اچھی آتی ہو گی۔ لوگ اس پہ بھی بہت ہنستے ہوں گے ، لیکن اس ریٹنگ کی دوڑ نے معیاری پروگرام کے عزیزی کو بھی کچھ تبدیلی پہ مجبور کیا اورپہلے عزیزی لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کراتا تھا کہ مسائل کے حل میں لوگوں کا کردار کیا ہے لیکن اب اس نے بس لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے۔

عزیزی آج بھی مشہور ہے لیکن عام پاکستانی کی طرح نہیں بلکہ ایک مسخرے کی صورت۔ جیو میں علی میر جیسا بہترین اداکار اور نعیم بخاری جیسا پڑھا لکھا شخص ہوتے ہوئے بھی اس کا معیار متاثر ہوا، حتیٰ کہ خود آفتاب اقبال کا اپنا نیا پروگرام ” خبردار” بھی وہ پہلے جیسی کوالٹی نہیں دے سکا۔2009 میں” حسبِ حال ” کی صورت جو تازہ ہوا کا جھونکا آیا تھا 2015 تک وہ ” وا ۔ورولا” (بگولہ) بنا چینل چینل گھوم رہا ہے۔

معاشرے کے سدھار کے لیے 80 کی دہائی میں ضیا الحق نے ریڈ لایٹ ایریا میں رات دس بجے کے بعد محفلوں پہ پابندی لگا دی ، جس کی وجہ سے وہاں کام کرنے والیوں کو اپنا کاروبار چلانے میں دشواری ہوئی تو وہ بادشاہی مسجد کے پچھواڑے سے نکل کے شہر کے پوش علاقوں کی بڑی بڑی کوٹھیوں میں منتقل ہو گئیں، اور یہ محفلیں چند مخصوص گلیوں سے نکل کے پورے شہر یں پھیل گئیں۔اسی طرح فحش جگت بازی اور عامیانہ رقص کی وجہ سے سٹیج پہ ہی پابندی لگادی گئی، لیکن ان پروگراموں سے below the belt کامیڈی ٹی وی کی وساطت گھر گھر پہنچ گئی۔

کچھ چیزیں معاشرے میں ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اگر وہ شہر کے ایک کونے میں رہ کر اپنے کام میں مصروف ہیں تو انھیں ان کی حد میں رکھ کر اجازت دینی پڑتی ہے.

مخصوص طبقہ ہی ان تک پہنچتا اور مستفید ہوتا ہے، جب زبردستی ان پر بند باندھا جائے تو بہتے پانی کی طرح یہ اپناراستہ خودبناتے ہوئے سیلاب کی صورت پورے شہر میں پھیلتے ہیں۔پنجاب حکومت کو اس طرف بھی نظر کرنی پڑے گی.

سٹیج اور سٹیج اداکار ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں انھیں ان کا اصلی مقام واپس کیا جائے تاکہ یہ اپنی مخصوص skill (مہارت) کے ذریعے روزی روٹی کما سکیں اور ٹی وی کا معیار بھی قائم رہ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے