کرپشن ہمارے معاشرے میں رچ بس گئی ہے، کرپشن کو نہ سیاست سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی گورننس سے، نہ تجارت سے نہ عدلیہ سے ، ہسپتالوں ، سکولوں یا انفرادی باہمی تعلقات سے نہ ہی ہماری مسجدوں سے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ کرپشن کا تعلق مسجد سے کیا ہے؟ نکاح خواں کی مٹھی گرم کریں تو بگڑا ہوا کام سیدھا ہو جاتا ہے۔ آئے روز یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں نکاح خواں نے نکاح پر نکاح کر دیا۔ یہ کرپشن نہیں تو اور کیا ہے ، کرپشن کا بازار گرم ہے مگر ماننے کو کوئی تیار نہیں، اپنے آپ کو سب معصوم کہتے ہیں۔ بے شرمی اور بے غیرتی ڈھٹائی کی حد تک ہے۔ چوری اوپر سے سینہ زوری، میرا تعلق دور افتادہ علاقے سے ہے ، گاؤں کی زندگی پنجاہتیوں کے گرد گھومتی ہے۔
ایک بزرگ نے ایک واقعہ سنایا کہ گاؤں کے کسی جوان سے ایک جرم ہو گیا برادری کے لوگوں نے پنچایت کی ۔ جوان کو بلایا گیا جس نے بڑی ڈھٹائی سے اپنے جرم کی صحت سے انکار کر دیا۔ بزرگ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ دودھ کالا ہوتا ہے یا سفید ؟جوان نے کہا ’’کالا‘‘۔ اس کے اس جواب سے لوگ حیران ہو گئے کہ دودھ کس طرح کالا ہو سکتا ہے۔ احتساب کرنے والوں نے کہا کہ چل تیری والدہ سے پوچھتے ہیں وہ جو کہے گی وہ تجھے ماننا پڑے گا۔ جوان بھاگا بھاگا اپنی والدہ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ اماں جی پرھیا کے لوگ آپ کے پاس یہ معلوم کیلئے آ رہے ہیں کہ دودھ کا رنگ کالا ہوتا ہے یا سفید تو آپ نے کہنا کالا۔ والدہ نے کہا تیرا دماغ چل گیا ہے دودھ کا رنگ بھلا کالا کیسے ہو سکتا ہے بیٹا جواب دیتا ہے کہ اماں جی میں مانوں گا تو تب بات بنے گی، میں مانتا ہی نہیں کہ دودھ کا رنگ سفید ہوتا ہے۔
آج کل حکمران طبقے کے لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کرپشن ہم نے کی۔ وہ اپنے آپ کو سب گنگا کے نہائے ہوئے سمجھتے ہیں۔
نندی پور پاور پراجیکٹ میں اربوں کے گھپلے نواز شریف نے نہیں بلکہ مشرف نے کیے،
چچوکی ملیاں میں ہونے والی کرپشن انہوں نے نہیں امریکی صدر باراک اوباما نے کی ،
نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ میں کمیشن برطانیہ کے وزیراعظم ڈیویڈ کیمرون نے لیا ،
میٹرو ٹرین میں گھپلے حنیف عباسی اینڈ کو نے نہیں بلکہ ہندوستان کے لالو پرشاد یادیو نے کیے۔
عجب کرپشن ہے ، کرپشن یہ کرتے ہیں اور مانتے بھی نہیں۔ طاقتور بچ جاتا ہے اور غریب رگڑے میں آ جاتا ہے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے وی سی خواجہ علقمہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے اور گھپلا کرنے والے رانامشہود دندناتے پھر رہے ہیں۔
ایل ڈی اے لاہور تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتا ہے بات جب گنڈاسہ والی سرکار کے پلازے پر پہنچتی ہے تو آپریشن ختم کر دیا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں احتساب کا پیمانہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ نیب کے چیئرمین نے کرپشن کی روک تھام کیلئے اعلان کیا کیا کہ شہباز شریف سے رانا ثناء اللہ تک ، نواز شریف سے مشاہد اللہ خان تک سب کلبلا اٹھے ۔ نیب کے پر کترنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، سب چور اچکے ، ڈاکو نیب چیئرمین کے اختیارات محدود کرنے کی کوششوں میں اکٹھے ہو گئے۔
تین دن پہلے کی بات ہے کہ سابق اسرائیلی وزیراعظم آئیود المرٹ بدعنوانی ثابت ہونے پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ ارے وہ تو یہودی ہے اور ہم مسلمان۔ ہم تو اس دین کے پیروکار ہیں جو معمولی چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے لیکن یہ کام ہم نہیں ہمارے دشمن کر رہے ہیں۔
جنرل مشرف کے دور میں نیب کے سربراہ جنرل شاہد عزیز تھے ان کی جنرل مشرف سے قرابت داری تھی ، مشرف نے انہیں نیب کا چیئرمین بنایا تو انہوں نے تیل میں ہونے والی خردبرد کی تحقیقات شروع کی وہ اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں تحقیقات کے کاغذات کا پلندہ لے کر مشرف کے پاس پہنچا ، کاغذات میز پر رکھے ، صدر صاحب نے کاغذات کو ہاتھ کے جھٹکے سے دھکیلا وہ پھسلتے ہوئے میز کے آخری سرے پر جا کر ٹھہر گئے۔
I don’t care what you have written in it, i don’t even what to read it.
انہوں نے غصے سے مجھے گھورتے ہوئے کہا میز کے سامنے میں اور جنرل حامد جاوید بیٹھے ہوئے تھے تیل کی انکوائری کی رپورٹ تھی جسے انہوں نے یوں پھینکا ، اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز ان کے مشیر برائے توانائی مختار احمد ، چیئرمین سی بی آر عبداللہ یوسف سمیت سب لوگ میرے خلاف ہو گئے ، شوکت عزیز نے مجھے دفتر بلایا اور کہا کہ تم تیل کی انکوائری میں لگے ہوئے ہو۔ اس میں کچھ گھپلا نہیں وہ لکھتے ہیں کہ حکمرانوں اور طاقتور بیوروکریسی نے اتنے روڑے اٹکائے کہ مجھے استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیوروکریسی سمیت چور ڈاکو یہ چاہتے ہیں کہ نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ چیئرمین قمر زمان چوہدری صاحب کو پنجابی میں یہ کہا جاتا ہے ’’لک ڈاڈا کرنا پڑے گا ‘‘ یعنی کمر مضبوط کرنی پڑے گی اور ان لٹیروں کے خلاف کارروائی کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینا ہو گی۔ آپ بھی جنرل امجد اور جنرل شاہد عزیز کی طرح کمزوروں کی صف میں شامل ہوں گے۔