آج پوری دنیا میں مادری زبان کا دن ہے . پاکستان خاص طور پر لاہور میں ماں بولی کا عالمی دن کچھ سالوں سے غیر معمولی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے جو انتہائی خوش آئند بات ہے لیکن حیرت اس امر پر ہے کہ یہ غیر معمولی جوش و خروش اس دن کی تقریبات میں این جی او سیکٹر کی غیر معمولی شرکت کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہا ہے. جس پر منفی و مثبت دونوں قسم کے پہلو سامنے آتے ہیں .
سب سے پہلے مثبت پہلو
این جی او سیکٹر جس ایشو کو ابھاریں اسے میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل ہو جاتی ہے ، این جی او سیکٹر کی منظم کردہ کئی تحریکیں کامیابی بھی حاصل کر لیتی ہیں ، این جی اوز کی تقریبات کا گلیمر شرکا کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنتا ہے `
اب اگر منفی پہلو دیکھیں تو ایک ہی نکتہ کافی ہے کہ این جی اوز پاکستان میں غیر منافع بخش تنظیم کی بجاے بھاری دیہاڑی لگانے کا ذریعہ بن گئی ہیں جس بنا پر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا فوکس کردہ ایشو لمبا عرصہ چلتا رہے تاکہ ان کی دیہاڑی لگنے کا سلسلہ بھی رواں دواں رہے لہٰذا ماں بولی کی سربلندی کا یہ جوش و جذبہ طوالت بھی اختیار کر سکتا ہے .
مادری زبان کے نفاد کے ایشو پر داد کے مستحق پنجابی پیارے ہیں جو انتہائی ایمان داری سے ماں بولی کی عظمت اور احیا کے لیے مصروف جدوجہد ہیں جن کی لگن کی وجہ سے اس ایونٹ میں سچائی کا جذبہ غالب بھی دکھائی دیتا ہے
مادری زبان کے عالمی دن کو منانے کی تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ انیس سو باون میں ڈھاکہ میں مادری زبان بنگالی کے حق میں مظاہرہ میں شہید ہونے والے چار سٹوڈنٹس ہمارے آج کے پاکستان کی حکمران کلاس کے افسران و سیاست دانوں کے بزرگوں کے حکم پر چلنے والی گولی کا نشانہ بنے تھے .
یہ امر پاکستان کا اس دور میں سامراجی کردار بھی بے نقاب کرتا ہے جو آج ماں بولی کے حق میں احتجاج کرنے والوں کی توجہ کا طالب ہے . کاش پاکستانی حکمران ڈھاکہ میں آج کے دن ہونے والی ریاستی دہشت گردی پر معافی کا اظہار کرنے کی جرات کر سکیں اس طرح ہو سکتا ہے کہ ماں بولی دیہاڑ صرف دیہاڑی لگنے تک محدود نہ رہے .