میں 5وجوہات کی بنیاد پر مولوی صاحب کی بات نہیں مانتا۔

لوگ پیاسے ہیں لوگ اسلام چاہتے ہیں لیکن اسلام کے دعویدار عوام کی ضرور ت پوری نہیں کر رہے ،،قوم اسلامی اصولوں کے مطابق چلنا چاہتی ہے لیکن کوئی ایسا عالم دین نہیں مل رہا جو انہیں مسلکی تعصب سے بلند کر کے دین اور اخلاق کا علم ہاتھ میں تمھا دے ۔

کتنے بڑے المیے کی بات ہے کہ ہماری مسجدیں ویران ہوگئیں ہیں ،،آپ جمعہ کے دن دیکھیں سو میں 98فیصد مسجدیں ویران ہوتی ہیں ، مولوی جب تقریر شروع کرتا ہے تو چند بابوں کے علاوہ مسجد میں کوئی نہیں ہو تا، مولوی اللہ اور رسولؐ کی بات کرتا ہے لیکن بازار کھلے ہوتے ہیں دکانیں کھلی پڑی ہوتی ہیں،لوگ انتظار کر تے ہیں تقریر کے ختم ہونے کا ،اور مولوی انتظار کرتا ہے لوگوں کے آنے کا ، کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟؟؟

اس سوال کو یہاں ہی روکتے ہیں ایک دوسرا سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ ملک پاکستان میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن جاتا ہے ، زرداری صدر بن جاتاہے اور ان دونوں سے ہٹ کر قوم عمران خان کو ہیرو بنا لیتی ہے اور پھر خیبر پختونخواہ کی حکومت بھی اسے دے دی جاتی ہے لیکن مولوی صدر نہیں بنتا ، مولوی وزریر اعظم نہیں بنتا ، قوم اقتدار علما ء کے حوالے نہیں کرتی آخر کیوں؟جبکہ اس ملک کی اٹھا نوے فیصد آبادی اسلام چاہتی ہے لیکن اسلام پسندوں کو زمامِ اقتدار نہیں سونپتی ،،،میرے خیال میں اس کی پانچ بڑی وجوہات ہیں ۔

وجوہات پڑھنے سے پہلے میری گزارش ہے کہ آپ ٹھنڈے ہو جائیں جذبات کو چاہ یوسف میں پھینک دیں اور پھر پڑھیں ،

،سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عوامی مسائل کو سمجھا ہی نہیں قوم چاہتی کیا ہے یہ ہمیں معلوم ہی نہیں ، قوم کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی ہے، میرے نبی ؐ کا فرمان ہے کہ فقر انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے ، آپ اللہ اور رسول کی باتیں کرتے رہیں لیکن جب آپ انسان کی بنیادی ضرورت پہ نہیں بولیں گے تو لوگ آپ کی طرف کیسے آئیں گے ،،، ؟؟روٹی کی بات فرانس اور روس والوں نے کی تو آدھی دنیا ان کے پیچھے ہو گئی ، روس نے نصف صدی میں نصف دین کو متاثر کیا سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ایک دوسرا نظام کھڑ اکر دیا ، وہ خدا کی ذات کے منکر ہو کر بھی دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں تو اللہ اور رسول کا نام لینے والے ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟؟اسلام تو بھرا پڑا ہے غریبوں کے حقوق سے ، ،،جب تک ہم اس پہلو کو نظر انداز کرتے رہیں گے قوم ہمیں نظر انداز کرتی رہے گی،،،عوام کے لیے سب کچھ کرنے کی باتیں میاں نواز شریف ، زرداری اور عمران خان کرتا ہے تو قوم انہیں کندھوں پہ بٹھا دیتی ہے ،، ، آپ بولیں ظلم کے خلاف ، آپ بولیں ڈاکوؤں کے خلاف ، آپ بولیں ظالموں کے خلاف پھر دیکھیں کہ کیسے قوم آ پ کی طرف آتی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ معاشرہ امن چاہتا ہے اگر کسی کے پاس کھانے کے لیے روٹی اور رہنے کے لیے کوٹھی ہو لیکن اردگرد بارود کی بوُ ہو تو کیسے خوش رہا جا سکتا ہے ،؟ ہمارے معاشرے کا امن جہاں دیگر طاقتوں نے خراب کیا وہیں ہمارے فتوں نے معاشرے کو آپس میں لڑایا ہے ،، جب اختلافات علم کی بنیاد پہ ہوتے تو معاشرے میں رواداری اور امن تھا لیکن جب جگہ بندوق نے لے لی تو عوام ہم سے دور ہوگئی ، ایک محلے میں اگر کسی کا بچہ مذہب کی بنیاد پہ مارا جاتا ہے تو عوام پہ کیا اثر پڑے گا؟؟فتووں نے عوام کو مولوی بیزار بنا دیا ہے ، آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں مسلح جنگ مذہبی طبقے نے ہی لڑی ، ہمیں ماضی سے جان چھڑانی ہوگی ،، ہمیں ماننا ہو گا کہ عوام کے دور ہونے کی دوسری بنیادی وجہ قتل و قتال اور فتویٰ بازی ہے ۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اہل مذہب بات اسلام کی کرتے ہیں لیکن اسلام کے لیے ایک نہیں ہو تے کوئی طاقت انہیں اکھٹا کرے تو ہو جاتے ہیں ورنہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد پہ قناعت کرتے ہیں، اسلام کی نام لیوا جتنی جماعتیں ہیں انکا اندرونی حال ناقابلِ بیان ہے اب تو ایک مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نما ز بھی نہیں پڑھتے ، آپ دیکھیں تو آپ کو جماعتوں کی مسجدیں ملیں گی ایک جماعت کی مسجد میں دوسری جماعت کا لیڈر بیان نہیں کر سکتا ، ایک مسلک والا دوسرے مسلک والے کے ہاں نماز پڑھنے چلا جائے تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھا جاتا ہے ، جماعتوں کی مسجدیں ملیں گی، قوموں کی مسجدیں ملیں گی خدا کی مسجد نہیں ملے گی ، خانہ خدا بھی فرقوں میں بٹ گیا ہے ، اہل مذہب جب تک ایک نہیں ہونگے تو اقتدار تک پہنچ کے نظام خدا کیسے نافذ کریں گے ؟؟ علماء خود کو زمیں پہ انبیاء کا وارث سمجھتے ہیں اور خدا کا خلیفہ سمجھتے ہیں تو یہ خدائی نظام کس طرح نافذ کریں گے ؟ اب جس چال پہ چل رہے ہیں یہ تو صدیوں بعد بھی کچھ نہیں کر سکیں گے ۔

چوتھی وجہ جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہمارے قول اور فعل میں تضاد ہے ، لوگ بھی یہ کہتے ہیں مولوی جو کہے وہ کرو جو کرے وہ نہ کرو، قرآن پاک میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے ، اور حضورؐ نے جب فاران کی چوٹی پر اسلام کی بات کی تو سب سے پہلے اپنے کردار کے بارے میں پوچھا کہ میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ ہم کہتے ہیں بات کو دیکھو، بات کرنے والے کو نہیں ،،، جبکہ نبی ؐ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خود کو پیش کرو ،اگر آپ کا عمل ایک بات پہ ہے جب آپ وہ بیان کریں گے تو اس کا اثر بھی ہو گا ، جب قرآن حلق سے نیچے نہ اُترے تو عوام کس طرح عمل کرے گی ؟ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا ۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ ہم کسی مسئلے کا حل پیش نہیں کرتے ، ہم کہتے ہیں سود حرام ہے لیکن بینکو ں کے مقابل کوئی نظام پیش نہیں کرتے ، اگر پیش کرنے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں ، ہم جمہوریت کو کفر کہتے ہیں لیکن مقابل کوئی نظام نہیں دے رہے ، ، خلافت قائم کیسے ہو گی ، اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہوتا ،ہم عدالتوں کے خلا ف ہیں لیکن مقابل طریقہ وضع نہیں کرتے ، ہمیں سوال ضرور اُٹھانے چاہئیں لیکن جواب بھی دینا چاہئے ، میں یہ نہیں پوچھتا کہ مولوی چاند پہ کیوں نہیں گیا لیکن یہ ضرور پوچھوں گا کہ زمین پہ اس نے کیا کیا ہے ؟ ہاں اگر علماء اقتدار چاہتے ہیں اور مسجدوں کو آباد دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ازسرنوپالیسی ترتیب دینی ہوگی۔ہم کب تک کہتے رہیں گے کہ طاقت ور حلقے ہماری راہ کی رکاوٹ ہیں میں اس بات سے انکار نہیں کرتا لیکن یہ سوال ضرور پوچھوں گا کہ لوگوں کو مسجد کون نہیں آنے دے رہا؟میڈیا پہ گلہ بھی نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے الزام دیا جائے مولوی کے پاس منبرہے پانچ وقت لوگ اسکے پاس آسکتے ہیں یہ لوگوں کی غم اور خوشی میں شریک ہوتا ہے عوام کے ساتھ رابطے میں رہنے کے باوجود یہ لوگوں کو اپنا نہیں بنا سکتا تو پھر گلہ کیسا ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے