یاد رہے کہ عمر بن عبد العزیزؒ سلیمان بن عبد الملک کے بہنوئی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے وزیر اور مشیر خاص بھی تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان کی موجودگی میں مسلمانوں کا خلیفہ یوں چار چار شادیاں کرے اور پھر انہیں طلاق دے کر دوبارہ شادیاں رچائے؟ ہرگز نہیں۔ مروان بن الحکم (سلیمان بن عبد الملک کے دادا) کے زمانے سے بنو امیہ جماعت کی نماز میں تاخیر کرنے کے عادی ہو گئے تھے، یعنی نماز اول وقت میں ادا کرنے کے بجائے لوگوں کو انتظار کرواتے۔سلیمان بن عبد الملک اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بار جمعہ کی نماز کے لیے تاخیر سے آیا تو ایک شخص نے مجمع کے سامنے اسے ڈانٹ دیا۔جس کے بعد خلیفہ نے اس بری رسم کو یکسر ختم کر کے نماز کی ادائیگی اول وقت میں کرنے کو لازم پکڑ لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ نماز میں تاخیر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں وہ خلیفہ کے اس شنیع فعل پر کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟99 ھ میں سلیمان بن عبد الملک کی وفات قنسرین سے متصل وابق کے علاقہ میں اس وقت ہوئی جب وہ جہاد کی نیت سے اللہ کے راستہ میں تھا۔ مسلمان فوجیں قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لیے آگے روانہ کر دی گئی تھیں جبکہ خلیفہ وقت میدان کارزار کے قریب ان کی امداد اور کمک کے بندوبست میں لگا ہوا تھا۔ کیا ایک بدکردار خلیفہ سے اس جرات رندانہ کی توقع کی جا سکتی ہے؟ سلیمان بن عبد الملک نے اپنے بھائی ہشام بن عبد الملک اور یزید بن عبد الملک کے ہوتے ہوئے عمر بن عبد العزیزؒ کو ان کی نیک نامی کی بنیاد پر خلیفہ نامزد کیا، حالانکہ اس وجہ سے پورے خاندان کی مخالفت بھی مول لینی پڑی۔ کیا یہ عمل اتنا بتانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ ایک نیک سیرت انسان اور مسلمانوں کے دلی ہمدرد تھے؟
سلیمان بن عبد الملک کے دور میں تین ایسے حادثے ہوئے ہیں جن کی بنا پر اسے مطعون کیا جاتا ہے۔ سلیمان بن عبد الملک سے قبل تخت خلافت پر اس کا بڑا بھائی ولید بن عبد الملک متمکن تھا۔ ولید کے زمانے کو خلیفہ ثانی عمر بن خطابؓ کے دور خلافت سے متماثل کہا جاتا ہے کیونکہ ولید کا دور بے شمار فتوحات اور رفاہی کاموں کے حوالے سے بالکل ویسا ہی تھا جیسا حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ۔ محمد بن قاسم، موسی بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم باہلی اسی دور کی یادگار ہیں۔ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد تھا۔قتیبہ بن مسلم بنو امیہ سے تھا جبکہ موسی کا والد نصیر مروان بن حکم اموی کا آزاد کردہ غلام مگر خاندان بنو امیہ کا ایک فردسمجھا جاتا تھا۔ یہ تینوں اعلی پائے کے فوجی سربراہ تھے جنہوں نے اپنی فراست اور شجاعت کے ذریعے بہت سے ممالک فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ولید بن عبد الملک سلیمان کو محروم کر کے اپنے بیٹے عبد العزیز کو ولی عہد بنانا چاہتا تھااور حجاج بن یوسف، قتیبہ بن مسلم اور موسی بن نصیر اس کے ہم خیال تھے۔ ولید اپنے اس ارادے میں کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن سلیمان کے دل میں ان تمام لوگوں کے لیے نفرت کا بیچ بو گیا جو اس کی خلافت میں رکاوٹ بننا چاہتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلیمان نے خلیفہ مقرر ہوتے ہی محمد بن قاسم کواس لیے قید میں ڈال دیا کہ وہ حجاج بن یوسف کا رشتہ دار تھا۔ قتیبہ بن مسلم نے تو علی الاعلان بغاوت کی جو اس کے قتل کا سبب بنی اور موسی بن نصیر اسی نفرت کا شکار ہو کر اپنی عزت و حرمت گنوا بیٹھا۔ میں سلیمان بن عبد الملک کی ان لغزشوں کی صفائی ہرگز نہیں دوں گا مگر جو لوگ نظام سلطنت کی بقاء کے اصول جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔
ولید بن عبد الملک کا ذکر آیا تو عرض کر دوں کہ حجاج بن یوسف بھی ہماری تاریخ کا ایک عجیب و غریب کردار تھا۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عراقی باشندے جو ہمیشہ باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث رہتے تھے حجاج بن یوسف کے زمانے میں سدھر گئے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف حجاج بن یوسف کے بارے تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آسمان نے اس جیسا ظالم انسان اس سے پہلے دیکھا نہ اس کے بعد۔حجاج کو اس قدر سفاک انسان بتلاتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ ناجائز بغاوت بھی ایک ظلم ہے اور جو قوم اس ظلم و سرکشی کی عادی ہو جائے اسے حاکم وقت کی نرمی مزید سرکش بنا دیتی ہے۔ رہی بات عام انسانوں پر ظلم کی تو ہماری افسانوی تاریخ اس بارے کہتی ہے کہ حجاج نے قریب ایک لاکھ بیس ہزار افراد کا قتل کیا۔ کیا واقعی ایک صوبائی گورنر صرف بیس سال میں اتنی بڑی تعداد کا قتل کر سکتا ہے؟ حالانکہ یہ بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے کہ حجاج کے دور میں عراق (اس زمانے میں بصرہ، کوفہ، واسط، ایران اور خراسان کو عراق کہا جاتا تھا) کی کل آبادی 65 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یقیناًان پیسنٹھ لاکھ افراد میں عورتیں، بچے ، بوڑھے ، غیر مسلم اور غیر ملکی سب ہوں گے کیونکہ عراق و شام اس وقت تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ مواقع روزگار کا گڑھ تھے۔ یاد رہے کہ تاریخ ایسی کوئی شہادت پیش کرنے سے قاصر ہے کہ حجاج نے عورتوں ، بچوں، غیر مسلموں ، غیر ملکیوں، ایرانیوں یا خراسانیوں کوبحیثیت قوم قتل کیا ہو، اکا دکا کی بات الگ ہے۔مطلب یہ ہوا کہ حجاج نے اکثر و بیشتر بصرہ و کوفہ کے رہنے والوں کا قتل کیا ہو گا۔ تو کیا اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی نسل کے مرد اگر مارے جائیں تو سلطنت کا نظام چلنا ممکن ہے؟ اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو سوال اپنے وجود کا چیخ چیخ کر اعلان کرتا ہے کہ پھر حجاج کے زمانے میں بصرہ و کوفہ بہترین علمی و ثقافتی مرکز کیسے بن گئے تھے؟ شاید آپ پر یہ حقیقت آج پہلی بار منکشف ہو رہی ہو کہ حجاج کے دور میں دمشق کی حیثیت صرف ایک علامتی مرکز کی سی تھی اور بصرہ و کوفہ اس وقت علمی میدان میں اتنی ترقی کر چکے تھے کہ وہاں قرآن کریم کے بارے ایک انقلابی سوچ نے جنم لیا کہ اس پر اعراب لگائے جائیں حالانکہ اس سے قبل عربوں میں اعراب (زبر، زیر، پیش) کا سرے سے تصور ہی نہیں تھا۔ کیا ظلم و جبرکے دور میں ایسی فکریں پروان چڑھنا ممکن ہے؟
حجاج بن یوسف کو سب سے زیادہ لعن طعن سعید بن جبیرؒ کے قتل پر کیا جاتا ہے اور افسانہ نگار کی فنکاری دیکھئے کہ سعید بن جبیرؒ کے قتل کو داستان دلگدازبنا کر پیش کرتا ہے۔ لکھا گیا ہے کہ حجاج نے حکم دیا: اس کی گردن اڑا دو۔ انہوں نے کہا دو رکعت پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ حجاج نے اجازت دے کر کہا : اس کا منہ سمت کعبہ سے پھیر دو۔ انہوں نے آیت پڑھی کہ جس طرف رخ کرو اللہ موجود ہے۔ حجاج نے کہا: زمین پر لٹا کر اسے ذبح کر دو۔ انہوں نے پھر آیت پڑھی کہ اسی(مٹی) سے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور پھر اسی سے تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے۔اس واقعہ کو انہی تفصیلات کے ساتھ قبول کرنے کے لیے دو میں سے ایک چیز ضرور ماننی پڑے گی۔ پہلی ، اس زمانے میں حاکم وقت کی نشست جلاد خانے میں ہوا کرتی تھی۔ دوسری، اگر حاکم کی نشست جلاد خانے میں نہیں تھی تو پھر اس زمانے میں جلاد اس قدر مہذب تھے کہ جسے قتل کرنے کا پروانہ مل چکا تھا اس کی زبان سے نکلی ایک ایک بات پہلے حاکم کے پاس پہنچاتے، اس سے نئے احکام لیتے اور پھر واپس آکر مجرم کی گردن اتارنے کی تیاری کرتے۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ سعید بن جبیرؒ کو حجاج نے اس فوج کا خزانچی بنا کربھیجا تھا جس کا سپہ سالار ابن الاشعث نامی ایک شخص تھا ، کسی وجہ سے ابن الاشعث نے خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو سعید بن جبیرؒ ان کے ہمنوا ہو گئے۔ حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور فوج نے اس بغاوت کو کچل دیا، ابن الاشعث مارا گیا اور سعید بن جبیرؒ بھاگ کرپہلے اصفہان اور پھر مکہ میں روپوش ہو گئے ۔اس وقت مکہ کے گورنر عمر بن عبد العزیزؒ تھے جو ان کے ساتھ چشم پوشی کا معاملہ کرتے رہے، بعد میں جب انہیں معزول کر کے دمشق بلایا گیا تو نئے گورنر نے سعید بن جبیرؒ کو گرفتار کر کے حجاج کے سامنے پیش کر دیا۔ حجاج نے ان سے پوچھا : سعید کیا تو نے خلیفہ اسلام کی بیعت نہیں کی تھی۔ فرمایا جی ہاں کی تھی۔ حجاج نے پوچھا: تو پھر بیعت توڑنے کی نوبت کیوں آئی؟ فرمایا: کیونکہ میں ابن الاشعث کی بیعت میں داخل ہو گیا تھا ۔خلیفہ وقت سے بغاوت اور پھر اس کا اقرار اس بات کی نشانی تھی کہ سعید بن جبیرؒ کو اپنے عمل پر کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ اتنی بات حجاج بن یوسف کو برافروختہ کرنے کے لیے کافی تھی چنانچہ اس نے ان کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر قتیبہ بن مسلم باہلی جیسا سپہ گر اور ذہین انسان بغاوت کے جرم میں قابل گردن زنی ہو سکتا ہے تو سعید بن جبیرؒ جیسا متقی و پرہیز گار کیوں نہیں؟
[pullquote]پہلا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں، [/pullquote]