سادہ فارمولا ، آسان حل

گھر کے اندر مشرقی ماحول اور دہلیز پار کرتے ہی مغربی آزادیوں کے متمنی ہم میں سے اکثریت

منافق نہیں ہے تو کیا ہے ؟

عجب ڈگر پر چلتا معاشرہ ۔ دودھ ، دہی ، مرچ ، مصالحے سے لے کر محبت اور خلوص تک میں ملاوٹ طبعیت کا حصہ بن چکی ، منافقت ہے کہ فطرت ثانیہ میں ڈھل چکی،

جس کے سامنے دانت نکالے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوں گے ، نظروں سے اوجھل کیا ہوا ، کہ جیسے وہ اپنے ساتھ اپنی ساری خوبیاں بھی لے گیا ، اور پھر اسی کی برائیاں ، اسی محفل میں ، ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،

ہم ٹھیک ، باقی سب غلط

برائیاں دوسروں میں ، ہم تو اچھائیوں کے پیکر

صاحب! ریت ہی ایسی چل پڑی ہے

باس کے سامنے زبان جی جی کرتے تھکتی نہیں ، کہ جیسے باپ سے بھی زیادہ قابل احترام ، اُسی کی غیر موجودگی میں اندر کی گرواٹ باہر کا رخ کرتی ہے، اور تب فقرے کسے جا رہے ہوتے ہیں ، نقلیں اتاری جا رہی ہوتی ہیں

بریکنگ نیوز کی طرح دوسروں کی برائیوں کو پھیلانے والے اپنے حال سے اکثر بے خبر ہی ہوتے ہیں، پارلیمنٹ میں بیٹھے ممبر سے لے کر تھڑے والے تک اور قیمتی ترین سوٹ میں ملبوس پڑھے لکھے سے لے کر گاؤن کے کھیت میں رفع حاجت کرتے جاہل گنوار تک، سب ایک مرض کے مریض ہی نظر آتے ہیں

چینل تبدیل کر دیا ، بہن جو کمرے میں داخل ہوئی ، خدا کے بندے اگر بہن کی موجودگی میں توں وہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا تو پھر اکیلے میں بھی نہ دیکھ یا پھر چینل نہ بدل ۔ اسے بھی تو معلوم ہو کہ بھائی کتنا معصوم ہے

لیکن نہیں! پھر فرشتہ صفت اور شریف کون کہے گا؟

راتوں کو شباب اور شراب کی محفلیں منعقد کرنے والے خودساختہ شرفاء اسی انگور کی بیٹی کے خلاف قراردادیں پیش کرتے ہیں

شراب حرام ہے تو پھر پیتے کیوں ہو ؟ کوئی شرم ، کوئی حیا ؟

کہیں سے کوئی جمشید دستی جیسا کردار برآمد ہوتا ہے ، جو پارلیمنٹ لاجز سے شراب کی بوتلیں گننے اور ڈھونڈنے میں مصروف، سستی شہرت کے متلا شیوں کچھ تو عقل کرو

بازار ، دفاتر ، شاپنگ مالز ، عدالتوں، غرض کہ کسی جگہ بھی عورت نظر آ جائے ، تو اس باریک بینی سے جائزہ لینا کہ شاید اس کا مجسمہ تیار کرنا ہو ، پاؤں کے انگوٹھے کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک ایسا مشاہدہ شاید فرشتوں نے بھی بناتے ہوئے نہ کیا ہو گا ، ہر گہرائی میں دھنستی اور ابھار پر چڑھتی نظریں اور پھر عورت کے اوجھل ہوتے ہی معاشرے میں بڑھتی فحاشی و عریانی کا لیکچر تیار ہوتا ہے

ایسی عوام پھر حکمرانوں پر الزام کس منہ سے لگاتی ہے

چمچہ گیری ، چاپلوسی ، خوشامد سے اٹی بے حس شخصیتیں اس ملک کا مستقبل کیا سنواریں گے

غلام ابن غلام بننے میں فخر ، جانوروں جیسے سلوک کے باوجود عجیب سا غرور ، سچ میں لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ قوم اسی سلوک کی مستحق ہے

حالات بدلتے نہیں ، عقل کے اندھوں بدلنے پڑتے ہیں ، اکیلی دعائیں رنگ نہیں لاتیں، ساتھ دوا بھی کرنی پڑتی ہے

طوائفوں کو معاشرے کا ناسور قرار دے کر انہی کی آغوش میں پناہ لینے والوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوسروں کی ماں بہن کو دیکھ کر رالیں ٹپکانے والوں ، ناہنجاروں پھر اس کے بعد غیرت کی بات کس منہ سے کرتے ہو

جب دوسروں کی ماؤں بہنوں کو بے باک نظروں سے گھور رہے ہوتے ہو ، تو پھر تیار رہا کرو کہ کوئی تم جیسا غیرت سے عاری انہی نظروں سے تمہاری عورتوں کا بھی ایکسرے کر رہا ہو گا

وکیل عدالتوں میں ، صحافی میڈیا پر ، سیاستدان پارلیمنٹ میں ، ڈاکٹر ہسپتالوں میں ، اساتذہ سکولوں میں ، مولوی مساجد میں غرض کہ ہر شعبے کے افراد دو نمبری میں سینے پر تمغے سجائے ۔ حقوق اس طرح مانگتے ہیں کہ جیسے تمام فرائض ادا کر دیئے ہوں

پھر کہتے ہو مسائل حل نہیں ہوتے ،

معاشرے سے ریپ ، شراب ، چوری ، ڈکیتی ، کرپشن ، دو نمبری تب ختم ہو گی ، جب نام نہاد شرافت کا لبادہ اتار کر اصلی چہرہ سامنے لاؤ گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سادہ اور آسان حل یہ ہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

منافقت چھوڑو ، جو کرو سامنے کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔

کوئی اچھا ہے یا برا اس کے منہ پر کہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جو چیز اپنے لیے جائز سمجھتے ہو ، دوسروں کے لیے گناہ نہ سمجھو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حرام کو حلال کے لبادے میں مت چھپاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپنی بیٹی کی عزت محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو پھر عہد کر لو کہ کسی کی بیٹی پر ہوس والی نظریں نہیں ڈالو گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے