پاکستان کرکٹ ٹیم کے بلے بازوں کےساتھ ” تو چل میں آیا ” والا مسئلہ نیا نہیں، برسوں پرانا ہے مگر ماضی میں محدود اوورز کی کرکٹ یعنی ون ڈے میں چھٹی پوزیشن پر ایک مستند آل راونڈر ( اس کی دہائی میں عمران خان اور بعد میں کسی حد تک وسیم اکرم اور عبدالرزاق ) کو کھلایا جاتا تھا۔ جو جلدی چار پانچ وکٹیں گرنے کی صورت میں کسی ایک "باقی بچ رہنے والے بیٹسمین” کے ساتھ مل کر پاکستانی ٹیم کی ” نیا” پار لگانے کی کوشش کرتا تھا اور یوں ہماری کرکٹ ٹیم پہلے 30 اووز میں صرف 100 رنز بنانے کے باوجود آخری 20 اوورز میں، چار پانچ وکٹ محفوظ ہونے کے باعث 100، 120 مزید رنز بناکر مخالف ٹیم کو ایک ” قابل احترام ” ٹوٹل دے دیتی تھی۔
ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے میچ میں بھارت نے جو ٹارگٹ 16 اوورز میں پورا کیا، پاکستان نے وہ اسکور 17 اوورز میں بنایا تھا۔ مطلب صرف یہ کہ کرکٹ، ٹیسٹ ہو ون ڈے یا ٹی ٹوئنٹی۔۔ سب سے اہم چیز وکٹ ہو اکرتی ہے۔ اگر 17 اوورز میں 80 رنز پر 9 کی بجائے 2، 3 یا 5 کھلاڑی بھی آوٹ ہو ئے ہوں مگر ایک سیٹ بیٹسمین کریز پر کھڑا ہو تو ٹی ٹوئنٹی جیسے فارمیٹ میں آخری تین اوورز میں 50 رنز بھی آسانی سے بن جاتے ہیں اور اگر 80، 82 میں 50 جمع کریں تو بات 130 سے اوپر نکل جاتی ہے۔ ایسے میں محمد عامر جیسا باولر پہلے اوور میں دو وکٹ اڑا دے تو بعد میں بیٹنگ کرنےو الی ٹیم کے لئے 130 رنز کا ہدف عبور کرنا، کبھی بھی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شاہد آفریدی” ہیرو’ اور مصباح الحق ” زیرو ” ہے۔ اس ہیرو اور زیرو کی گیم کے پیچھے ہمارا ” چھکے مار ” میڈیا ہے جہاں ” سنگل ڈبل ” کرنے والے رپورٹرز تو "ٹک ٹک” کہلاتے ہیں مگر ” پھٹے مار ” رپورٹرز سارا دن ٹی وی اسکرینوں پر جگمگاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی رپورٹنگ اور آفریدی اسٹائل بیٹنگ ( حالانکہ جو کچھ آفریدی کرتا ہے اس بیٹنگ کہنا توہین ہے ) میں مماثلت اس لئے بھی نظر آتی ہے کہ یہاں "ٹک ٹک رپورٹرز” سے تو مہینے بعد یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس کے ” پھٹے ” کتنے تھے مگر ” پھٹے ماروں” سے مہینے بعد، ہرگز یہ پوچھنے کی روایت نہیں کہ جناب! ” آپ کے پھٹوں میں سے کتنے ” باونس” ہو ئے”۔ یعنی رات گئی ، بات گئی۔
ہمارے معاشرے نے بالعموم اور میڈیا نے بالخصوص ” سپر اسٹار ” کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ جس کے باعث ہر ایک شعبے میں "ایوریج ” لوگ راتوں رات ” سپر اسٹار ” بن جاتے ہیں۔ ایک میڈیا گروپ جو آج کل آفریدی پر تنقید کرکے اپنے ” گناہ” دھو رہا ہے، اسی میڈیا گروپ کے بل بوتے پر شاہد آفریدی ایک دہائی سے اس ملک کا ” سپر اسٹار ” ہے۔ 20 برس قبل ون ڈے کرکٹ کی ” تیز ترین ” سنچری کے بل بوتے پر اس سپر اسٹار نے اپنے کیرئر میں 400 کے قریب ون ڈے کھیل کر تقریبا اتنی ہی وکٹیں حاصل کیں یعنی بمشکل” ایک وکٹ فی میچ ” اور اس دوران 8 ہزار کے قریب رنز بنائے یعنی "فی میچ 20 رنز”۔ واہ جناب! کیا کہنے آپکے، داد دینے کو جی چاہتا ہے آپکی ” میڈیا مینجمنٹ” پر۔ 1996 سے 2016 تک میڈیا نے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا ” آج اگر آفریدی چل گیا تو "۔
پاک بھارت میچ کی اختتامی تقریب میں ویرات کوہلی کی بات کتنی درست تھی ” اچھا پلیئر وہ ہوتا ہے جو کنڈیشنز ( حالات، صورتحال ) کا احترام کرے”۔ حالات کا احترام یہ ہے کہ چاہے ٹیسٹ میچ ہو، ون ڈے یا ٹی ٹوینٹی۔ آپ نے اپنی وکٹ ” تھرو” نہیں کرنی بلکہ طے کرنا ہے کہ مشکل حالات میں جب اوپر تلے آپکی تین وکٹیں گر جائیں تو سنگل ڈبل کرکے میچ کے آخری اوور تک وکٹ پر رہنے کی کوشش کی جائے اور حالات بہتر ہوتے ہی آخری اوورز میں وکٹ ہاتھ میں ہونے کا فائدہ اٹھا کر ” ہارڈ ہٹنگ ” کی جائے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں لمبی اننگز کھیلنے کا ٹیلنٹ رکھنےو الے شعیب ملک اور عمر اکمل بھی گزشتہ کئی عرصے سے ” حالات کا شکار ” ہوکر شاہد آفریدی کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے ” سپر اسٹار ” بننے پر “مجبور” دکھائی دیتے ہیں۔
سپر اسٹار بننے کا کوئی فائدہ ٹیم کو ہو نہ ہو سپر اسٹار کو ضرور ہوتا ہے اور ” میڈیا میجنمنٹ ” کے بدلے وہ راتوں رات "سپر ماڈل” بن جاتا ہے۔ وہ اشتہاروں میں بولنگ اور بیٹنگ دونوں میں اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ ناظرین یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس سے بڑ ا کھلاڑی کوئی نہیں۔ ایسے میں جب اشتہاری کمپنیوں کے کروڑوں روپے اس ” سپر اسٹار” پر لگے ہوں تو پھر میڈٰیا اور سلیکٹرز کی آنکھیں بھی گویا بند ہوجاتی ہیں اور ایک نام نہاد ” سپر اسٹار” پوری قوم کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجا تا ہے۔ یوں ایک عام سا کھلاڑی اپنی ” ماڈلنگ” کے باعث دیکھتے دیکھتے ہی آل راونڈر بن جاتا ہے۔
دنیا بھر میں آل راونڈر کی تعریف ہے کہ جو بیٹنگ اور باولنگ دونوں کام کرسکے۔ مگر پاکستان میں گزشتہ 15 برسوں میں ” سپر اسٹار ” کی طرح ” آل راونڈر ” کی تعریف بھی بدل گئی ہے۔ ہمارے ہاں جو بیٹنگ اور باولنگ دونوں کام نہ کرسکے اسے آل راونڈر کہا جاتا ہے۔ سپر اسٹار آل راونڈر شاہد آفریدی، میچ کےبعد ،جب رمیز راجہ کو انٹرویو دے رہے تھے تو ایک انٹرویو” کہیں اور” بھی چل رہا تھا۔
سوال : پاکستان نے بڑا اسکور کیوں نہیں کیا ؟
شاہد آفریدی: ” چار پانچ بیٹسمین پہلے پانچ اوور میں آوٹ ہوجائیں تو ٹیم بڑا اسکور نہیں کرسکتی”۔
سوال: پانچ آوٹ ہو ئے تو آپ کریز پر تھے، ابھی 12 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ آپ نے بیٹنگ کیوں نہیں کی؟؟؟ کیا آپ بیٹسمین نہیں ؟
شاہد آفریدی: میں آل راونڈر ہوں جناب ! اور ہاں ! بالرز نے شروع میں اچھی بالنگ کرکے میچ بنا لیا تھا مگر محمد عامر کو پانچواں اوور کرانے کی اجازت نہیں ملی۔
سوال ” مگر آپ نے باولنگ کیوں نہیں کروائی؟؟؟
شاہد آفریدی: (غصے سے) بتایا ہے تو میں آل راونڈر ہوں۔
سوال: آپ بیٹنگ کرسکے نہ بالنگ کی،،،، آخر کیسے آل راونڈر ہیں ؟؟؟
شاہد آفریدی: آپ سے ایسے ہی ” گھٹیا سوال ” کی توقع تھی۔
اور اگلے ہی لمحے میڈیا پر بریکنگ نیوز کے ” پھٹے "۔ تو اور کیا ، واقعی آج آفریدی ” چل ” گیا۔