4جنوری 2011ء کوسابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو گستاخی رسول ﷺکا الزام عائد کرکے قتل کیا گیا، کسی کی جان لے لینایقیناً جرم ہے،مجرم سرکاری ڈیوٹی گارڈ تھااور اپنے کئے کا اقراری بھی تھا،ریاست چاہتی تو لیاقت علی خان کے قاتل کی طرح اسی وقت مجرم کا قصہ تمام کر دیتی، مگر مقدمہ درج ہوا،عدالتی عمل کے بعد سزائے موت ہوئی جو صدر ممنون حسین کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد کئے جانے تک برقرار رہی اور پھر 29فروری2016ء کو رات گئے اڈیالہ جیل میں ممتاز قادری کو پھانسی چڑھادیا گیا۔
ایک باب بند ہوا ،ریاست کی رٹ بحال ہوگئی،جرم کہیں بھی ہو،کسی سے بھی ہو، مقتول غریب ہو، امیر ہو، بے اختیار ہو یا بااختیار انصاف کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ریاستیں کفر پر قائم رہ سکتی ہیں ،ظلم پر نہیں‘‘۔ انصاف کی فراہمی ظلم سے نجات کا بہترین طریقہ ہے، حکومت پاکستان نے پھانسی دے کر سلمان تاثیرکی روح اور ان کے اہل و عیال کو انصاف کی فراہمی کی اپنی سی کوشش کی۔
کیا بات یہاں ختم ہوگئی، ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد کیا پاکستان میں انصاف کا دور دورہ ہوگیا ہے؟ ریاست نے قتل کے ایک مجرم کوسزا دیدی اور اپنی رٹ قائم ہوگئی، بس یہی کافی تھا؟کیا ایسے مجرموں کو ہی سزا دی جاتی رہے گی جنہیں بچانے والا کوئی سامنے نہیں آتا؟ اگر ہاں تو یہ پالیسی کیا انصاف کہی جاسکتی ہے؟ اور اگر جواب ناں میں ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست کا انصاف ہر مجرم کیلئے یکساں ہے تو پھر ابھی تک کراچی کی سڑکوں پر ٹارگٹ کلنگ کا شکار بننے والےہزاروں شہری انصاف کے طلبگارکیوں ہیں؟ بلدیہ فیکٹری کے 250سے زائد خاندان انصاف کے متلاشی کیوں ہیں؟کیا ریاست اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ اکبر بگٹی کو کسی نے بھی قتل نہیں کیا؟ ریمنڈیوس نے سیارہ مریخ پر3 پاکستانیوں کا قتل کیا تھا؟ مان لیا ان کے اہلخانہ نے خون بہا لے لیاتھا،لیکن قتل تو ریاستی حدود ہی میں ہوا تھا، قاتل پرریاستی رٹ تو لاگو ہونا ہی چاہیے تھی،ریاست اپنے اس حق سے کیوں دستبردارکیوں ہوئی؟.
25اور 26نومبر 2011ءکی درمیانی شب سلالہ چیک پوسٹ پر بیرونی حملے میں مرنے والے 24فوجیوں کے قاتل تاحال کیوں بچے ہوئے ہیں؟کیا ان کا خون صرف ایک معافی سے دھل گیا؟اس طرح کے لاتعداد سوالات ہیں جو ریاست پر قرض ہیں۔
یقیناً ہرپاکستانی ممتاز قادری کواس کے کئے جرم کی سزا ملنے کے بعد پر امید ہوچکا ہے کہ مجرم دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، ریاست جرم اور مجرم کا ہر گز ساتھ نہیں دے گی،جرم کے حوالے سے صفر برداشت کی پالیسی سے یقیناً امن ملک کا مقدر بنے گا، اس کی ہلکی سے جھلک آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں مجرموں کا گھیرا تنگ کئے جانے سے سامنے آرہی ہے، ہر وہ پاکستان جو امن اور بہتر پاکستان کا متلاشی ہے وہ یہی چاہتا ہے کہ چُنے ہوئے مقدمات ہی کے فیصلے نہ کئے جائے،ہر پاکستانی کا خون اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کسی اورکا،چاہے وہ کوئی بھی ہویہاں تک کہ دوسرے ملک کے شہری سے بھی پاکستان کی حدود میں جرم سرزد ہوا ہو اسےملک کے انصاف کے اصولوں کی روشنی میں سزا ملنی چاہیے۔ اگر ایسا ہوگیا تو میرا دل یہ گواہی دے رہاہے کہ پھر ہمیں کسی دہشت گرد گروپ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ترقی کا سفر پھر 4اعشاریہ،5اعشاریہ اور 6اعشاریہ کی شرح کے بجائے 10،20اور 30اعشاریہ کی صورت میں ہوگا،اگر آپ کو یقین نہ آئے تو سستاانصاف سب کیلئے،ہر صورت اور بروقت کا اصول لاگو کردیجئے۔