ٹھہرئیے ، زرا سانس تو لیجئے

یہ دین اللہ کا ھے ، صرف اللہ کا ،،

جی یہ دین اللہ کا ھے اور وھی ایک دین دے سکتا ھے کیونکہ وہ جذبات سے بالاتر ھستی ھے، باقی سارے اس دین کے تابع ھیں ،چاھے وہ اللہ کے رسول ﷺ ھوں یا رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ ھوں ، تابعین ھوں یا تبع تابعین ،،

سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

اس سے پیچھے چلئے تو آدم علیہ السلام بھی اس دین کے تابع تھے اور اس کی خلاف ورزی پر ھی گرفت میں آئے تھے اور توبہ کی تھی ، ابوالانبیاء ابراھیم خلیل اللہ علیہ و علی نبینا الصلاۃ والسلام بھی اس دین کے تابع تھے اور اول المسلمین تھے ،، سب سے پہلے سرِ تسلیم خم کرنے والے اور اللہ کے تابعدار تھے ،، یہی حال نبئ کریم ﷺ کا بھی تھا ، قرآن بار بار جو کیفیت نبئ کریم ﷺ کی بیان کرتا ھے ، اللہ پاک جو بات اپنے نبی ﷺ کے منہ سے ” قل ” کہہ کر کہلواتا ھے وہ یہی ھے کہ میں تو وحی کا اتباع کرنے والا ھوں ،میں بھی اگر اس کی خلاف ورزی کروں تو ایک بڑے عذاب سے دوچار ھو سکتا ھوں

آپ کہہ دیجئے کہ میں دراصل پیروی کرتا ھوں اس کی جو وحی کیا جاتا ھے میری طرف میرے رب کی طرف سے ، یہ ( قران ) تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والے حقائق پر مبنی ھے اور ھدایت و شفقت ھے ایمان رکھنے والے

کہہ دیجئے کہ میں حکم کیا گیا ھوں کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لئے دین کو خالص کر کے ،،اور حکم کیا گیا ھوں کہ ( احکاماتِ ربانی پر ) سب سے پہلے میں ھی سرِ تسلیم خم کرنے والا بنوں – کہہ دیجئے کہ میں بھی ڈرتا ھوں اس بات سے کہ اگر رب کی نافرمانی کر دی میں نے تو بڑے دن عذاب کی گرفت میں نہ آ جاؤں ،،

سورہ انعام کی آیت نمبر 15 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

کہہ دیجئے کہ میں حکم دیا گیا ھوں کہ پہلا سرِ تسلیم خم کرنے والا بنوں ، اور مجھے کہا گیا ھے کہ مشرکین میں سے مت بنوں ،، کہہ دیجئے کہ میں بھی ڈرتا ھوں رب کی نافرمانی کر کے بڑے دن کے عذاب سے دوچار نہ ھو جاؤں ،،

ایک یہودی نبئ کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ لوگ شرک کی مذمت بھی کرتے ھو اور خود شرک کا ارتکاب بھی کرتے ھو ،، تم لوگ کہتے ھو کہ جو اللہ کی اور آپکی مرضی،، اور کہتے ھو کہ کعبے کی قسم ،، جس پر نبئ کریم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ ” جو اللہ چاھے پھر آپ چاھیں ” کہا کریں اور کعبے کی قسم کی بجائے ” کعبے کے رب کی قسم کھایا کریں ،،

صیحیح نسائی کی روایت نمبر 3773

ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ھیں کہ ایک آدمی دربارِ نبوی میں حاضر ھوا اور کسی بات پر کہا کہ جو اللہ اور آپ ﷺ چاہیں ،، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” کیا تو نے مجھے اور اللہ کو برابر کر دیا ھے ؟ ” بلکہ صرف اکیلا اللہ ھی جو چاھے ،
مسند احمد

نبئ کریم ﷺ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ یہ بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ اللہ کو اور آپ ﷺ کو ایک ضمیر میں یکجا کیا جائے ،،،

اللہ کے رسول ﷺ خطباء کا تعین کرنے سے پہلے ان کا امتحان لے رھے تھے – ایک ایک کر کے خطیب چند جملوں میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ،، حضورﷺ تصویب فرماتے اور اگلے خطیب کو دعوت دیتے ،،

ایک خطیب نے خطاب شروع کیا ،، اما بعد من یطع اللہ و رسولہ فقد رشد و من یعصیھما فقد غوی ،، جملے کا مطلب 110٪ درست تھا اور صحابہؓ مطمئن بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے حضور ﷺ کی طرف نہ دیکھا کہ آپ کا چہرہ اقدس سرخ ھو گیا ھے ،،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تو قوم کا بُرا خطیب ھے ،، بیٹھ جا ،، صحابہؓ اس شدید رد عمل پر چونک گئے کیونکہ نبئ کریم ﷺ کسی بندے کی اصلاح مجمعے میں اس پر اعتراض کر کے نہیں کیا کرتے تھے جب تک کہ دین کے حرام اور حلال کا معاملہ نہ ھو ،، پھر اس آدمی کی بات میں انہیں کوئی قابلِ اعتراض بات بھی نظر نہیں آ رھی تھی ،، گویا جو حضور ﷺ دیکھ رھے تھے وہ صحابہؓ کی نظر سے اوجھل رھا ، بات تب واضح ھوئی کہ یہ کتنا اھم معاملہ تھا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے وضاحت فرمائی ،، آپ نے فرمایا کہ ” قل من یعص اللہ و رسولہ فقد غوی ” کہہ کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ بھٹک گیا ،، تم نے مجھے اللہ کے ساتھ ایک ھی ضمیر میں کیونکر جمع کر دیا ؟ ( یعصیھما ) آج تم نے مجھے کلمے میں اس کے ساتھ داخل کر دیا ھے اور کل عبادت میں بھی داخل کر دو گے ،تم مجھے بھی ھلاک کرواؤ گے ؟ کیا تم نے اللہ کا غصہ نصاری پر نہیں سنا کہ جب انہوں نے عیسی کو اس کے ساتھ برابر ٹھہرایا تو اس نے غضب کے ساتھ فرمایا کہ اگر میں عیسی اور اس کی ماں اور زمین میں بسنے والے سارے ھلاک کر دوں تو مجھے کون پوچھ سکتا ھے ؟

جو رسول ﷺ اللہ پاک کے ساتھ ایک ضمیر (Pronoun) میں ایک ساتھ شامل ھونے پر کانپ اٹھے ، لوگ کمال ڈھٹائی کے ساتھ اس اللہ کے واضح احکامات کے مقابلے میں ایک حدیث کوٹ کریں گے اور آگے لکھ دیں گے ،، اسنادہ حسن ، اسنادہ صحیح ، اسنادہ علی شرط بخاری ،، اس کا مطلب ھوا کہ چونکہ ھم قرآن کی سند لکھنے میں ناکام رھے لہذا اس کی کوئی ویلیو نہیں ،، قرآن کے مقابلے اسنادہ حسن کا مطلب تو یہ ھوا کہ قرآن کی سند ضعیف ھے ،،

فقہ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب کوئی کسی کو ایسی بات کہے کہ جس کا الٹ گالی بن جائے تو اس کو بہتان کے زمرے میں رکھ کر سزا دی جائے گی ، مثلاً کوئی عورت بچوں کی لڑائی میں دوسری عورت کو کہتی ھے کہ ” ھم نے بچے حرام کے پیدا نہیں کیئے ” یا ساڈھے بچے حرام دے نئیں ” تو اس کا صاف مطلب ھے کہ تم نے حرام کے پیدا کیئے ھیں لہذا اس بات کے گواہ مل جائیں تو کہنے والی کو حد ماری جائے گی ،، بالکل قرآن کو رواء کی قوت کے بل پہ دبانا اور اس کے احکامات کی مزاحمت کرنا خود اس کی روایت پہ سوال کھڑا کرنا ھے ،،،

دین میں بگاڑ ھمیشہ محبت کے رستے داخل ھوا ھے ،دین اپنے دشمنوں کا مقابلہ تو کرتا آیا ھے مگر اپنے دوستوں کے ھاتھوں چت ھو گیا ،، سیکڑوں عیسائیوں کے جتھے کے جتھے آگ کی خندقوں میں جلائے گئے ، اور عیسائی ھنس کر ان میں داخل ھو گئے ،مذاھب کی تاریخ میں عیسائیت سے زیادہ مظالم کسی مذھب پر نہیں ھوئے ،مگر مظالم عیسائیت کو مضبوط ھی کرتے گئے اس کو ختم نہیں کر سکے ،، پھر ایک دوست آگے بڑھا سینٹ پال ، اللہ کا ولی پال جس نے عیسائیت کی مت مار کر رکھ دی ،جس شریعت کی خاطر عیسائی آگ میں جل جاتے تھے مگر ترک نہ کرتے تھے ، اس نے اس طرح پیار کے ساتھ ان کے ھاتھ سے نکال لی جس طرح ماں سوتے بچے کے منہ سے دودھ نکال لیتی ھے ، توحید کے نام پر تثلیث پکڑا دی اور سب کچھ حلال کر کے رکھ دیا ، آج چرچ میں پادری مرد سے مرد کا نکاح کراتے ھیں ،،، لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ،،،

آج مجھے وہ بچی بہت یاد آ رھی ھے جو اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھتی ھے جس کے باپ نے گوری سے شادی کر لی جس سے یہ بچی پیدا ھوئی ،، باپ کنیڈا سے پاکستان شفٹ ھوا تو والدین میں علیحدگی ھو گئ اور بچی نے عیسائی ماں کا مذھب چھوڑ کر باپ کا مذھب اسلام چن لیا اور باپ کے ساتھ پاکستان آ گئ ،، آج وہ کہتی ھے کہ میں ایک پوپ پال چھوڑ کر آئی تھی یہاں ھر مسجد میں پوپ بیٹھا ھے جس نے جینا حرام کر کے رکھ دیا ھے ،، کوئی آپ کی پرائیویسی نہیں ھے ، ان کا رویہ انتہائی ھتک آمیز ھوتا ھے گویا چار نمازیں پڑھا کر تنخواہ کیا لے لی ھمارے ماسٹرز بن گئے اور ھم ان کے غلام ٹھہرے ،،

جی آج ھر مسجد کا مسلک الگ ،موقف الگ ، اور ھر مولوی کا موقف شریعت قرار پا گیا جس کو چاھئیں واجب القتل قرار دے دیں ، مسجد کے اسپیکر سے اعلان ھوتا ھے ،بلیک وارنٹ جاری ھوتا ھے اور لوگ بھوکے بھیڑیوں کی طرح شکار کو گھیر لیتے ھیں ، کسی کو زندہ جلا دیتے ھیں اور اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹتے پھرتے ھیں ،کسی حاملہ عورت تک کا لحاظ نہیں کرتے ،، بچے سمیت ماں کو لاتیں مار مار کر جان سے مار دیتے ھیں اور دعوی رکھتے ھیں کہ یہ رحمۃ للعالمین کی امت ھیں ،، جس طرح کیڑے قبر میں پہلے مردے کو کھاتے ھیں پھر ایک دوسرے کو کھا کر مٹ جاتے ھیں اسی طرح یہ علماء پہلے عوام کی طرف منہ کرتے ھیں اور پھر ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیتے ھیں ،، دیوبندیوں کے نزدیک بریلوی مشرک اور واجب القتل ھیں ان کے ساتھ نکاح اور رشتے داری رکھنا منع ھے ،طالبان نے مفتی سرفراز نعیمی شھید کی مسجد کو جمعے کے دن نمازیوں سمیت اڑا کر اسی ذھنیت کا ثبوت دیا ھے ،،،

بریلویوں کے نزدیک دیوبندی گستاخِ رسول اور واجب القتل ھیں ، ان کا نکاح نکاح نہیں زنا ھے ، ان کے پیچھے نہ نماز جائز ھے نہ جمعہ جائز ھے اور نہ عید جائز ھے نہ حج جائز ھے ،،
سلفیوں کے نزدیک حنفی مسلمان نہیں ، یہ امام محمد ﷺ کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ کا اتباع کرتے ھیں لہذا منافق ھیں ،، جن علاقوں میں سلفیوں نے قبضہ کیا اس علاقے کے حنفیوں کی عورتوں کو لونڈیاں بنا کر بیچا اور ان کے گھر مال غنیمت کے طور پر لوٹ لئے ،یہ سب سے پہلے افغانستان میں ھوا ،جواباً افغانوں نے بھی ان کی مفتوحہ عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور مساجد کے باھر پک اپ کھڑی کر کے بیچا ،، اب یہی کام شام اور عراق میں بھی جاری ھے ، دبئ میں لشکر کے اجلاس میں جس میں پاکستان کے سلفی اور انڈین سلفی جمع تھے ،وھاں سوال اٹھایا گیا کہ جب ھم ان حنفیوں کو مسلمان ھی نہیں سمجھتے تو پھر ان کی مدد کے لئے لڑنے کا کیا مقصد ھے ؟ جواب دیا گیا کہ پہلےچھوٹے کافر کے ساتھ مل کر بڑے کافر کو شکست دیں گے ، پھر چھوٹے کافر کو ختم کریں گے ، اسی اجلاس میں وہ اختلاف ھوا کہ جس کے نتیجے میں امارات سے ان کا صفایا ھوا اور انڈین سلفیوں کی نشاندھی پر ایک ایک پاکستانی لشکری کو پکڑ کر پہلے جیل اور پھر آؤٹ کیا گیا ،،

جناب اگر ھر گروہ اور ھر مولوی اور ھر دینی مسلک کو یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ جسے چاھے اپنے ریفرنس کے ساتھ گستاخ اور کافر قرار دے کر مار دے تو پھر پاکستان میں سارے مذھبی گروہ ایک دوسرے کی نظر میں واجب القتل ھیں ،، حکومت رستے سے ھٹ جائے اور ان کو ایک دوسرے کو قتل کرنے دے ، باقی جو بچیں گے ان کو حکومت مار دے اور باھر سے صاف ستھرے مسلمان امپورٹ کر لے ،،
نبئ کریم ﷺ نے ایک بھی کلمہ گو کو توھین کے الزام میں قتل نہیں کرایا ، اور نہ ھی اللہ پاک نے اس کی اجازت دی ھے ، میں تفصیل سے سورہ توبہ کے تناظر میں سارے حوالہ جات کے ساتھ لکھ چکا ھوں کہ نبئ کریم ﷺ کو دی گئ گالیاں بھی اللہ نے بیان کر دی ھیں ، استھہزاء اور تمسخر کی حرکتیں اور جملے بھی کھول کر بیان کر دیئے ھیں ، نبئ کریم ﷺ کو شھید کرنے کی کوشش کو بھی بیان کر دیا ھے ، گیارہ بار ان کو کافر کافر کافر تک کہہ دیا ھے کہ انہوں نے عملاً کفر کر دیا ، قد کفروا بعد ایمانھم ،، قد کفرتم بعد ایمانکم ،، ذالک بانھم آمنوا ثمہ کفروا ،،، مگر ان سب کے باوجود ان کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ (( سیحلفون بالله لکم اذا انقلبتم الیهم لتعرضوا عنهم فاعرضوا عنهم انهم رجس و ماواهم جهنم جزاء بما کانوا یکسبون )(توبہ – 95 ) جب آپ پلٹ کر جائیں گے تو یہ اللہ کی قسمیں کھا کر عذر پیش کریں گے تا کہ آپ اس کو نظر انداز کر دیں ، آپ واقعی ان کو نظرانداز کر دیں کیونکہ یہ گندگی ھیں اور ان کا ٹھکانہ جھنم ھے اور وہ برا ٹھکانہ ھے ،، گویا ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دیجئے ،، چند واقعات کو بنیاد بنا کر شریعت نہیں بنائی جا سکتی ،، اگر کسی نے لونڈی مار دی تو وہ لونڈی غیر مسلم تھی توھین کی تو محارب ھو گئ مار دی گئ ، اس سے کلمہ گو کو مار دینے کا جواز کہاں سے نکل آیا ؟ کسی نے اپنا باپ مارا تو کافر باپ کا مارا ، اس میں کلمہ گو کو مارنے کا جواز کیسے پیدا ھو گیا ؟
اب آیئے ممتاز قادری کے معاملے کی طرف، بذات خود ممتاز قادری ایک صالح مخلص مسلمان تھا ،طبیعت شروع سے Violent پائی تھی ، ایسے سادہ لوح مسلمان مولوی کا آسان شکار ھوتے ھیں ،اس نے تقریر سنی اور جذبات میں قتل کر دیا ، اس کے وکلاء توھین ثابت کرنے میں ناکام رھے لہذا اشتعال کا نکتہ بھی کام نہ آیا ، اگر اس مولوی کو بھی ساتھ رکھا جاتا تو اشتعال کا نکتہ کام آ سکتا تھا ،مگر مولوی حنیف قریشی ، ممتاز قادری کی طرح سادہ نہیں تھا ، وہ جھٹ سے کورٹ کو بیان حلفی دے کر اپنی جان چھڑا آیا اور ممتاز قادری کو قانون کے حوالے کردیا ،، اپنے آخری پیغام میں حنیف قریشی جنازے کا وقت بتا رھا ھے اور ساتھ کہہ رھا ھے کہ مجھے حکومت نے گرفتار نہیں کیا ” میں پر سکون ھوں ” ظالم انسان بچہ دوسروں کا مروا کر تم نے تو پرسکون ھی رھنا تھا ،جن کی دنیا اجڑ گئ ھے ان سے پوچھو ،،

عجیب بات ھے کہ نبئ کریم ﷺ حنیف قریشی کے خواب میں آ کر فریاد کرتے ھیں کہ بدلہ لو ، مگر قتل ممتاز قادری کرتا ھے حنیف قریشی کے ھاتھوں کو بیان حلفی دیتے وقت فالج بھی نہیں ھوا ،،
جنت کے جھروکوں سے اماں عائشہ صدیقہؓ کی آواز سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو آتی ھے اور وہ پورے لاھور میں کرائے کا ٹانگہ دوڑاتے پھرتے ھیں راج پال کو قتل کرنے کے لئے علم دین پہنچ جاتا ھے ، آخر یہ بھڑکانے والے یہ کارِ خیر کیوں نہیں کرتے ؟ بہرحال Ignorance Is No Excuse ،، بھولپن کوئی عذر نہیں ھے ،،، ریمنڈ ڈیوس سمیت جن مجرموں کا نام لے لے کر کہا جاتا ھے کہ ان پر قانون لاگو کیوں نہیں ھوا؟ ،، ان کا تقابل ممتاز قادری کے کیس سے کیا ھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ انہوں نے یہ جرم مذھب کے نام پر مقدس فریضے کے طور پر نہیں کیا تھا ،، اگر دوسرے مجرموں کی طرح ممتاز قادری اور اس کے والدین بھی یہ تسلیم کرتے کہ ان سے جرم ھوا ھے ، تو ان کے مسئلے کا حل بھی اسی طرح نکل سکتا تھا جس طرح ریمنڈ ڈیوس اینڈ کمپنی کا نکل آیا تھا ، یہ لوگ بار بار سلمان تاثیر کے لواحقین کے پاس جاتے ، اپنے افسوس اور ندامت کا اظہار کرتے ، معافی کی درخواست کرتے تو میں گارنٹی سے کہتا ھوں کہ وہ لوگ ان کو بغیر دیت کے معاف کر دیتے،، مگر انہوں نے ایک بار بھی اظہار ندامت نہ کیا یہی کہتے رھے کہ جو کیا ھے ٹھیک کیا ھے، شریعت کا حکم پورا کیا ھے ،، اور سلمان تاثیر کا دوسرا بیٹا بھی اغوا کر لیا کہ معاف کرو ورنہ بیٹا بھی مار دیں گے ،، یہ طریقہ ھوتا ھے مقتول کے ورثاء کو صلح پر راضی کرنے کا ؟ کسی کو یہ احساس ھے کہ اس ماں پر کیا گزری ھو گی کہ جس کا شوھر بھی قتل کر دیا گیا اور اس کا بیٹا بھی اغوا کر لیا گیا اور خود ان کے سر پر بھی موت کی تلوار لٹکا دی گئ ، ان کو کیس لڑنے کے لئے وکیل تک نہیں کرنے دیتے ،وکیل کو دھمکیاں ملتی ھیں ،جج خوفزدہ ھیں ، گواہ سہمے ھوئے ھیں، اور آپ چاھتے ھیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح صلح ھو جاتی ؟

ان مذھبی جنونیوں کے رویئے نے حکومت کے سامنے کوئی اور آپشن چھوڑا ھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ ممتاز قادری کو لٹکا دیں ،کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے اور ممتاز قادری کے اقدام کو مقدس فریضہ تسلیم کر کے چھوڑ دیتے تو گویا 20 کروڑ پاکستانیوں کے ھاتھ میں قتل کا لائسنس پکڑا دیتے کہ جس کو تم اپنے گمان کے مطابق گستاخ رسول سمجھو قتل کر دو ، قانون تمہیں کچھ نہیں کہے گا ،،

میں یہ فرضی باتیں نہیں کر رھا پہلے خود ان پر عمل کر کے کہہ رھا ھوں کہ شریعت کا حکم یہی ھے کہ حاکم وقت سزا کا اختیار رکھتا ھے ،عام آدمی کے ھاتھ میں بدلے کی ننگی تلوار نہیں دی جا سکتی ، 1996 میں میرے دو بھائی قتل ھوئے ، 18 سالہ ادریس ڈار اور 22 سالہ مہربان حیسن ، جمعے کے دن ایک کو بارہ بور ڈبل بیرل سے مسجد کی محراب کے سامنے مار گرایا گیا اور پھر قاتل نے گھر آ کر ادریس کو جمعے کے لئے نکلتے ھوئے مین گیٹ کے سامنے گھر کے اندر والدہ کے سامنے ناف پر بندوق رکھ کر فائر کر کے مارا ، اس کی انتڑیاں نکل کر ناڑے کے اوپر سے لٹک آئی تھیں ،، بھائیوں کی لاشوں کو سمیٹا ،، پوسٹ مارٹم اپنے سامنے کرایا ،، قاتل تھانے کی کوٹھڑی میں میرے سامنے بیٹھا تھا اور گالیاں دے کر مشتعل بھی کر رھا تھا اور میرے پاس 9 گولیوں کی میگزین لگا 32 بور جیب میں پڑا تھا اور پاس کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا ، اس کے باوجود میں نے اس کو نہیں مارا ،، عدالت کو گواہ پیش کر کے یقین دلانا پڑتا ھے مجھے تو یقین تھا کہ اس نے مارا ھے مگر اس کے باوجود میں نے اس کو نہیں مارا ، اگرچہ تھانیدار کی مرضی تھی کہ یہیں کام چکا دو دفعہ 304 لگاؤں گا دو چار ماہ میں ضمانت ھو جائے گی ،، مگر میں ممتاز قادری نہیں تھا ،، مجھے پتہ تھا کہ یہ کام قانون کا ھے ، 11 سال کیس لڑا نصف کروڑ کے لگ بھگ پیسہ بھی خرچ کیا اور قاتل کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا کر پھانسی سے 24 گھنٹے پہلے معاف کر دیا ، اس لئے کہ قاتل کے والدین 11 سال ھماری منتیں کرتے رھے ،ندامت کا اظہار کرتے رھے جس سے احساس ھوتا ھے کہ آئندہ یہ گھرانا ایسا کچھ نہیں کرے گا ،، جبکہ ان مولویوں نے ممتاز قادری کے والدین کو اس طرف جانے ھی نہیں دیا ،، جب ورثاء ھی صلح نہ کریں تو حکومت کسی کو بھی معاف نہیں کر سکتی ،،،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے