درفش کاویانی، ممتاز قادری اور ایک سوال

کاوہ قدیم ایران میں ایک لوہار تھا۔ روایت ہے کہ وقت کے ظالم بادشاہ ضحاک نے یکے بعد دیگرے اس کے کئی جگر گوشوں کو نہایت ظالمانہ طریقے سے قتل کروا کر لخت لخت کرا دیا۔ ظلم و ستم کا یہ اندھا راج دیکھ کر کاوہ لوہار سے رہا نہ گیا۔ اس نے اپنی مظلومی کو سروسامان بناکر بادشاہ وقت سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا۔ کاوہ نے اپنی دھونکنی کے چمڑے کو نیزے سے باندھا، لہرایا اور ظلم کے انتقام کا نعرہ بلند کرکے چل دیا۔ ضحاک کے جور و جبر اور ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے لوگ شاید اسی لمحے کے منتظر تھے۔ کاوہ نے جس سمت گھوڑا دوڑایا، ہجوم خلق اس کے ساتھ ہو لیا۔ لوگ ملتے گئے، کاروانِ ا نتقام بڑھتا گیا۔ آتشِ انتقام تیز ہوتی رہی، آگ کو غضب کی سان چڑھانے والوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

درفش قدیم فارسی میں پرچم اور جھنڈے کو کہتے ہیں۔ کاوہ لوہار کے اس چرمی پرچم نے مظلوم رعیت کو شاہی جبروت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہونے کی طاقت بخشی اور دھرتی کے مظلوموں نے کاوہ کی نسبت سے اس پرچم کو ”درفش کاویانی“ کا نام دے کر حریت و حقوق کی جد و جہد کی علامت بنادیا اور اس کے سائے میں جوق در جوق صف بندی کرلی۔ قافلہ آگے بڑھا اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے ضحاک کے تبختر کو پامال کردیا۔ ضحاک فرار ہوکر گمنامی کی موت مرا۔ کاوہ لوہار نے ضحاک کی ”نادر شاہی“ سے لوگوں کو نجات دلانے کے بعد بجائے خود بادشاہت سنبھالنے کے، فریدون کو تخت شاہی پر بٹھا دیا، جو بڑا عدل گستر بادشاہ ثابت ہوا۔ فریدون نے بادشاہ بننے کے بعد کاوہ لوہار کی خدمات کے اعتراف میں ”درفش کاویانی“ کو سرکاری حیثیت دے کر ظلم کے خلاف کامیاب جدوجہد کے استعارے کے طور پر تاریخ میں امر کردیا۔

سیانوں نے ٹھیک کہا ہے کہ ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ ظلم کے سفر نے بھی یہ مقام حاصل کر رکھا ہے۔ تاریخ کا کوئی انسانی دور اٹھا کر دیکھ لیجئے، اس سفر کے ہمہمے سے نا آشنا نہیں ملے گا۔ خلقت پر ایک جیسا ظلم، جور، جبر اور قہر۔ دور فراعین مصر کا ہو یا اس کے صدیوں بعد کے یونانیوں کا۔ مگر ظلم کے خلاف ”درفش کاویانی“ لہرانے والوں کا وجود بھی ہمیشہ سلامت رہا ہے۔ دور کیوں جائیے، اپنی عظمتِ رفتہ کا ناروا بوجھ اٹھائی ہوئی تاریخ اسلام کے مختلف ادوار کے کچھ ”روشن“ جھروکوں میں ہی جھانک لیجئے، کتنے ہی درفش ہائے کاویانی آپ کو ہلکورے لیتے نظر آئیں گے۔ تاہم ماضی کی ”روشن“ مثالوں سے اپنی راہیں تاریک کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اپنے حال کے خار زار سے ہی کچھ ”خزف ریزے“ چن لیے جائیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے ملتے ہیں جب کچھ لوگوں نے ناموافق حالات کی ذہنی اور حسی کنٹھائیوں سے اکتا کر جوش غضب میں درفش کاویانی بلند کیا۔

تیس سال پہلے کی بات ہے۔ کراچی شہر میں سڑک حادثے میں ایک مقامی طالبہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس اندوہ حادثے کی خبر پھیلتے ہی لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ جذبات بے قابو ہوکر سڑکوں پر بہ پڑتے ہیں۔ شہید طالبہ کی قوم کے کچھ افراد آگے بڑھتے ہیں اور اس کے خون آلود دوپٹے کو درفش کاویانی بناکر گویا اپنی مظلومیت کو جدوجہد کا عنوان دیتے ہیں۔ تحریک چل پڑتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے لوگ اسی لمحے کے انتظار میں کب سے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ تحریک کو عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس مرحلے پر حقوق کی یہ تحریک جون بدل کر خالص ردعمل کی نفسیات میں ڈھل جاتی ہے۔ جیساکہ ردعمل کی پیدا کردہ تحریکوں کا مزاج ہے، وہ اپنی برادری کے سوا ہر قوم و برادری کو اپنا دشمن سمجھ کر سب سے دو دو ہاتھ کرنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی یہاں ہوا۔ تیس سال کے عرصے میں یہ ”تحریک“ ایک خوفناک ڈریکولا کی طرح ہزاروں افراد کا خون پی گئی۔ اس عرصے کے دوران بعض حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس ڈریکولا کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں اور اس کے ہر سنگین جرم پر نہایت بے شرمی سے آنکھ بند کیے رکھی۔

یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ گزشتہ سال کے نصف آخر میں شہر میں جاری بے انت قتل و غارت کو پوری طاقت سے روکنے کا فیصلہ ہوگیا۔ دار و گیر اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ کراچی کی جیلیں ایسے اقبالی مجرموں سے بھر گئیں، جو قتلوں کی سنچریاں کرچکے تھے۔ رئیس مما۔ انیس لمبا۔ جاوید بندا۔ طاہر توپچی۔ کامران مادھوری سے لے کر اجمل پہاڑی تک کتنے ہی خطرناک وارداتیوں کے جرائم کی ایسی ہوشربا تفصیلات سامنے آنے لگیں کہ انسانیت اپنے ہی کرتوتوں سے شرمسار ہوگئی۔ مگر ایک پرانے قتل کیس میں گرفتار غارت گر کو پھانسی دینے کے سوا کسی کو خراش تک نہیں آئی اور یہ سارے خطرناک مجرم سرکاری مہمان خانے میں گھر داماد بنا کر رکھے گئے ہیں۔ ریاست انہیں سزا دینے کے لئے کوئی پیش رفت کرتی ہے، نہ قانون ہاتھ میں لینے کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھانے والوں کو انہیں سزا دلوانے کے لئے آواز اٹھانے کی توفیق مل رہی ہے۔

پانچ سال قبل ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ ایک تھا گورنر پنجاب سلمان تاثیر۔ معاملہ پیش آیا قانون انسداد توہین رسالت (295C) کا۔ تاثیر صاحب اس قانون کو ایک امتیازی اور غلط قانون سمجھتے تھے۔ یہ خیال بہت سے دیگر لوگ بھی رکھتے ہیں۔ مگر تاثیر صاحب سماج کی حرکیات اور نفسیات کے تجزیے میں غلطی کر بیٹھے اور اس قانون کی مخالفت میں بہت کھل کر بہت آگے چلے گئے۔ ان کے آتشیں بیانات سے اشتعال بڑھ گیا اور مذہبی طبقے نے ان کے اقتدار کے جاہ و جلال کے پس منظر میں ان بیانات سے نظریاتی طور پر زچ ہوکر ان کے خلاف درفش کاویانی بلند کردیا۔ آگ دونوں طرف ہی برابر لگتی سلگتی رہی۔ تا آنکہ مذہبی رہنماو¿ں کے زیر اثر تاثیر صاحب کے ایک کمانڈو گارڈ ممتاز حسین قادری نے جوش و جذبات سے مغلوب ہوکر ایک دن موقع پاکر ان کا کام تمام کردیا اور ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کیا۔

مقدمہ شروع ہوا تو ممتاز قادری کے حامیوں کی بڑی تعداد سامنے آئی۔ یوں لگا جیسے عوام کی واضح اکثریت ان کی ”قانون شکنی“ کی حامی ہو۔ مگر عدالتوں نے جذبات اور عقیدتوں کو ایک طرف رکھ کر محض پاکستان پینل کوڈ کو پیش نظر رکھا، ”قانون ہاتھ میں لینے“ کے فلسفے اور ملزم کے اقبال جرم کی ظلمت مآب روشنی میں کیس کو آگے بڑھایا اور فیصلہ دے دیا کہ ممتاز قادری کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ اس پر اپیلیں کی گئیں۔ دہائیاں دی گئیں۔ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مگر عدلیہ کی سوئی پاکستان پینل کوڈ سے کسی طرح آگے نہ بڑھی۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں کا کام پورا ہوا۔ عدالتیں اس قدر ہی کیا کرتی ہیں۔ صرف اس کیس میں نہیں۔ سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو زندہ جلانے والوں سے لے کر کراچی کے اجمل پہاڑی تک ہر ہر کیس میں عدالتوں کا کام اتنا ہی رہا۔ اگلا مرحلہ انتظامیہ کا ہے۔ یعنی عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد۔ قادری کیس کے فیصلے کے بعد اس پر عمل در آمد کا مرحلہ آیا تو انتظامیہ کی سرپرستی مقتول سلمان تاثیر کی ہی پارٹی پی پی پی کے ہاتھ میں تھی۔ ”شریک چیئرمین“ بڑے طمطراق سے سربراہِ ریاست تھے۔ مگر انہوں نے کمال ہوشیاری سے، جیسا کہ اس میں وہ مہارت رکھتے ہیں، طویلے کی بلا ”بندر“ کے سر ڈال دی اور معاملے کو الٹا لٹکا کر چلتے بنے۔ ن لیگ بر سر اقتدار آئی۔ زرداری کی جگہ ممنون حسین نے لے لی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ”ٹنٹا“ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ممنون و مشکور صدر سے، جس نے اپنی تعلیم کا آغاز ہی اہلسنت بریلوی مکتب فکر کے دینی مدرسے سے کیا ہے، کے ذریعے عاشق رسول ممتاز قادری کی پھانسی کی توثیق کروادی اور اپنے تئیں ”ٹنٹا“ ختم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی لبرل پاکستان کی راہ میں بچھا ایک بڑا ”کانٹا“ نکل گیا۔

اب رہ گیا یہ سوال کہ قتل کا ایک یہ مقدمہ ہی زیر التوا نہیں تھا۔ بلاشبہ دسیوں مقدمات قتل اب بھی زیر التواءہیں۔ جن میں قتلوں کی سنچریاں اسکور کرنے والے اقبالی مجرموں کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ کیا قانون کی بالادستی صرف ممتاز قادری کیس کی ہی راہ تک رہی تھی اور اس پر عمل در آمد سے اس کی کلغی اب بلند و بالا ہوگئی؟ اب مزید کسی قاتل کو لٹکانے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا انصاف ہے صاحب، کیا ہی انصاف ہے۔ ہمت کیجئے، قانون کی بالادستی کا سفر ابھی مزید ہمت دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا ایک غیر حقیقی ردعمل اور نہایت غلط جوش انتقام میں کراچی کے ہزاروں شہریوں کا خون پینے والے ڈریکولاو¿ں کو غیر رسمی معافی دے کر قانون ہاتھ میں نہ لینے کا موثر پیغام دیا جاسکتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے