سار ا وطن پولیس کا مہماں ہے آج کل

پروفیسر اسد سلیم شیخ مال روڈ لاہور کے تاریخی ،ثقافتی ،سیاسی اور ادبی منظرنامے پرمبنی اپنی خوبصورت کتاب ”ٹھنڈی سڑک “کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ ”کوئی پینتیس برس پہلے میں نے جب شعوری حالت میں پہلی مرتبہ لاہور شہر کو دیکھا تو اس کے متعلق مشہور کہاوت سچ لگنے لگی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا ،وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔کسی نے ےہ بھی سچ کہا تھا کہ
کھائیے کنک بھانویں بھُگی ہووے
رہیئے لاہور بھانویں جھگی ہووے

پروفیسر صاحب کا ساڑھے تین عشرے قبل کا تجربہ اپنی جگہ،لیکن چند روز پہلے ہمیں لاہور پولیس کے ہاتھوں جس تلخ تجربے سے گزرنا پڑا ،اس کے بعد ہم ےہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا ۔اس تلخ تجربے کے دوران ہم پہ یہ انکشاف بھی ہوا کہ کس طرح دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پولیس اور کچھ دےگر ادارے دہشت پھیلا کر دہشت گردوں کا بیج مارنے کی فکر میں ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے سلسلے میں عام آدمی کو مشکوک قرار دینے اور اسے حراست میں لینے کا معیار کیا ہے ۔ہم لاہور کے علاقے اسلام پورہ میں ایک پرائیویٹ ہوسٹل میںگزشتہ دس برس سے قیام پذیر ہیںاور کم و بیش اتنا ہی عرصہ دشتِ صحافت کی سیاحی میں گزر چکا ہے ۔20فروری ہفتہ کی شام حسب معمول ہم دفتر سے واپس ہوسٹل پہنچے تو وہاں قریباًچار درجن اہلکار وں پر مشتمل پولیس ٹیم سرچ آپریشن میں مصروف تھی جس کی قیادت ایس ایچ او تھانہ بھاٹی گیٹ سب انسپکٹر شاہد حسین کر رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد یہ ٹیم ہمارے کمرے میں بھی پہنچ گئی ۔چونکہ کتاب سے محبت اور مطالعے کے شوق کے سبب ہمارے پاس کتابوں کا خاصاذخیرہ موجود ہے ۔ایس ایچ او نے ایک نظر کتابوں کی الماری پر ڈالی اور بولے: ”آپ نے اتنی کتابیں کیوں جمع کر رکھی ہیں ؟“ہم نے جواباً بتاےا کہ ”ہم اخبار نویس ہیں، روزنامہ امت کراچی سے وابستہ ہیں اور کتاب پڑھنا ہمارا شوق بھی ہے اور پیشہ ورانہ ضرورت بھی ۔“موصوف فوراً بولے: ”اگراخبار کراچی سے چھپتا ہے تو پھر آپ یہاں لاہور میں کیا کر رہے ہیں ؟“اسی دوران انہوں نے ہم سے کمرے کی تلاشی کی اجازت چاہی، جہاں کتابوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا ۔ایک اہلکار نے جیسے ہی الماری کھولی تو بالکل سامنے سابق افغان سفیر ملّا عبد السلام ضعیف کی خود نوشت My Life With The Taliban رکھی تھی ۔اہلکار نے کتاب ایس ایچ او کو تھما دی ۔انہوں نے کتاب کے سرورق کو بغور دیکھتے ہوئے اچانک ہم سے ہمارا موبائل فون مانگا اور ایس ایم ایس اِن باکس کھول کر چیک کرنے لگے ۔چونکہ آج کل معروف بھارتی ادیب ،صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ خوشونت سنگھ کی خودنوشت ”سچ،محبت اور ذرا سا کینہ “ہمارے زیر مطالعہ ہے جو اُس وقت بھی ہمارے سرہانے رکھی تھی ۔اتفاقاً دن میں ہم نے ایک صحافی دوست سے اس کتاب کے بارے میں بات کی تو شام کو انہوں نے ہمیں ایس ایم ایس کیا، جو یہ تھا: ”کیا آپ نے خوشونت سنگھ کی یہ کتاب پڑھی ہے:The End Of India “ایس ایچ ا و موصوف نے یہ ایس ایم ایس پڑھتے ہی فرمایا:”آپ کو مشکوک ثابت کرنے کے لئے تو ےہ خوشونت سنگھ والا ایس ایم ایس ہی کافی ہے۔“ ہم ان کی اس بات پہ ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہ ہو پائے تھے کہ انہوں نے کرسی پر رکھا رجسٹر اٹھایا اور اس کی ورق گردانی کرنے لگے ۔ہم نے گزشتہ سال جینیاتی بیج کی ٹیکنالوجی اور پاکستانی زراعت کے خلاف ہونے والی غیر ملکی سازشوں کے متعلق ایک رپورٹ فائل کی تھی ۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران ہم اگر کمرے میں موجود ہوتے ہوئے اپنے Sourceسے بات کرتے تو نوٹس لینے کے لئے اسی رجسٹر کو استعمال کرتے تھے ۔ اس رجسٹر کے ایک صفحے پر ایس ایچ او کی نگاہ رک گئی ۔انہوں نے بڑی درشتی سے ہمیں کہا: ”ذرا ےہ پڑھ کر سناﺅ ،کیا لکھا ہے؟ “جہاں موصوف نے انگلی رکھی ہوئی تھی ،ہم نے وہاں سے پڑھنا شروع کیا :”20اپریل 2010ءکو وزارت خوراک و زراعت اور مونسانٹو کمپنی کے درمیان ایک ایم او یو سائن ہوا جس میں یہ طے پایا کہ پاکستان میں تجارتی بنیادوں پر مونسانٹو کی مکئی اور کپاس کی پیداوار اور ٹیکنالوجی کو پھیلایا جائے گا ۔اس مقصد کے لئے جلد ایک ایکشن پلان تےار کیا جائے گا ۔ٹیکنالوجی کی فیس اور رائلٹی کے معاملات ایک حتمی معاہدے میں طے ہونگے۔ “ہم نے ابھی اتنا ہی پڑھا تھا کہ ایس ایچ او بھاٹی گےٹ غرا ئے:”بس رک جاﺅ ،صرف یہ بتا دو کہ یہ تم کس ایکشن پلان کا ذکر کر رہے ہو؟“ہم ابھی ان کا سوال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ انہوں نے ملّا ضعیف کی کتاب اور ہمارا رجسٹر اٹھاےا اور ہمیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا ۔اس سے پہلے وہ محکمہ اطلاعات پنجاب ،روزنامہ امت اور لاہور پریس کلب کی طرف سے جاری کر دہ ہمارے شناختی کارڈ چیک کر چکے تھے ۔چلتے چلتے انہوں نے الماری میں پڑے مجلس احرار اسلام کے ترجمان ماہنامہ نقیب ختم نبوت کے دو شمارے اور کچھ دےگر دینی پرچے بھی اٹھا لئے ۔ہم نے حیل و حجت کی کوشش کی تو انہوں نے ہمارا موبائل فون اپنے قبضے میں لیتے ہوئے کہا: ”آپ ضرور صحافی ہونگے ،لیکن ہماری نظر میں آپ ایک مشکوک آدمی ہیں ۔اس لئے آپ ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن چلیں، ورنہ….“ورنہ کے بعد کیا ہو سکتا تھا ،یہ ہم بخوبی سمجھ سکتے تھے اس لئے خاموشی سے ساتھ چل دےے ۔ہمیں سیدھا تھانہ اسلام پورہ لے جایا گےا ۔اُس وقت رات کے دس بج رہے تھے ۔دو پولیس اہلکاروں کے ہمراہ ہم جیسے ہی تھانہ محر ر کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں موجود ایک ادھیڑ عمر اے ایس آ ئی ہم سے برآمد ہونے والا ”ممنوعہ تحریری مواد “دیکھتے ہی ایک ساتھی اہلکار کو مخاطب کر کے بولا: ”اوئے اس کے خلاف تو پرچہ درج ہوگا ۔اسے فوراً حوالات میں بند کرو۔“یہ سنتے ہی دو اہلکار تیزی سے ہماری طرف لپکے ۔اب ہمارے بھی کان کھڑے ہوئے ۔ہم نے سوچا کہ اگر اسی طرح ہم ”گھگھو“بن کر ان کی ہر بات مانتے رہے تو کہیں آنے والے دنوں میں ہمیں ایک سکہ بند دہشت گرد یا سہولت کار کے روپ میں میڈیا کے سامنے پیش نہ کر دیا جائے، لہٰذا مجبوراً اسی لب و لہجے میں ہم نے اس اے ایس آئی سے کہا: ”تم پرچہ بعد میں درج کرنا ،پہلے اپنے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو بلاﺅ ۔میں ذرا ان سے بات کرلوں ،پ
ھر جو مرضی کرتے رہنا۔“ہماری اس بات کا اثر یہ ہوا کہ اہلکار ڈھیلے پڑ گئے اور انہوں نے ہمیں حوالات میں بند کرنے کی بجائے برآمدے میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔ایس ایچ او اسلام پورہ ناصر حمید نے آنا تھا نہ آئے ۔ہم نے ساری رات اسی کرسی پر بیٹھے گزار دی ۔اتوار کی دوپہر بارہ بجے ایس ایچ او تشریف لائے ۔انہوں نے آتے ہی ہمیں رات بھر بھوکا پیاسا بٹھائے رکھنے پر محرر کو ڈانٹا ۔بڑے اصرار سے ہمیں نان چنے کا ناشتہ کرایا ۔پھرغالباً متعلقہ ایس پی سے بات کی اور اس کے بعد ایک سب انسپکٹر کو طلب کر کے ہمارا تفصیلی بیان قلم بند کرنے کا حکم دیا ۔سب انسپکٹر نے جواباً پوچھا:”سر ،کیا ان کتابوں میں سے کچھ نکلا ہے؟“ ایس ایچ او موصوف نے کہا: بہت کچھ نکلا ہے ،اسی لئے آپ سے ان کا تفصیلی بیان لینے کو کہا ہے جو ایس پی کو پیش کیا جانا ہے ۔سب انسپکٹر ہمیں ایک الگ کمرے میں لے گئے اور ہمارا بیان رقم کرنا شروع کیا ۔اب ہمیں ایس ایچ او کے پیار بھرے ناشتے کی ”تاثیر “سمجھ میں آئی ۔ایک تو ہم شب بھر کے جاگے ہوئے تھے ۔اوپر سے نان چنے کا لاہوری ناشتہ ،نیند سے ہمارا بُرا حال ہو گےا،لیکن خیر ہم نے جیسے تیسے بیان قلمبند کرایا جس میں ہماری پیدائش سے اب تک کے حالات زندگی ،تعلیم ،اہل خانہ اور صحافتی کیریئر کے بارے میں خاصی تفصیل پوچھی گئی ۔علاوہ ازیں ےہ بھی دریافت کیا گےا کہ ہمارے کمرے سے ”برآمد “ہونے والی کتاب اور دینی پرچے ہم نے کہا ں سے حاصل کئے ۔اسی دوران ایس ایچ او موصوف کہیں چلے گئے لہٰذا ہمیں دوبارہ برآمدے میں بٹھا دےا گےا ۔اِدھر ہم باہر کی دنےا سے مکمل طور پر لاعلم بےٹھے تھے، کیونکہ ہمارا فون پولیس کے قبضے میں تھا لیکن اُدھر اللہ نے فضل فرمایا اور کسی دوست کی مہربانی سے ہماری گمشدگی کی خبر گجرات میں ہمارے گھر تک پہنچ گئی ۔والد صاحب نے ملّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق فوراً ”امت“کے کراچی ہیڈ آفس رابطہ کیا ۔ہمارے ادارے کی مداخلت کے نتیجے میں پولیس ہمارے خلاف کسی مزید اقدام سے باز رہی اور ہمیں چوبیس گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد ہم سے برآمد ہونے والا تمام تر ”ممنوعہ تحریری مواد “ہمیں واپس کرتے ہوئے اتوار کی شب نو بجے رہا کر دیا ۔اس طرح ایس ایچ او تھانہ بھاٹی گیٹ کی بھرپور کوشش کے باوجود ہم دہشت گرد بنتے بنتے رہ گئے ۔

ہم ارباب اختےار خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب سے ےہ سوال پوچھنا چاہیں گے کہ کیا یہی وہ معیار ہے جس کے تحت عام آدمی کو مشکو ک قرار دے کر حراست میں لیا جاتا ہے ۔کیا کسی موبائل فون میں خوشونت سنگھ والے ایس ایم ایس کی موجودگی فون کے مالک کو مشکوک ثابت کرنے کے لئے کافی ہے جبکہ یہاں تو صحافیوں کو تخریبی کارروائیوں کے بعد دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ای میل اور فون بھی آتے ہیں جن میں واقعے کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے ۔کیا ایسے صحافیوں اور صحافتی اداروں کو بھی گرفت میں نہیں لانا چاہیے۔ کیا پولیس افسران کو اتنا بھی شعور نہیں کہ ایک رپورٹر کے ہر طرح کے لوگوں سے رابطے ہوتے ہیں ،تبھی وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کر پاتا ہے ۔علاوہ ازیں آئی جی پنجاب اگر زحمت محسوس نہ فرمائیں تو تھانہ بھاٹی گیٹ کے اُس احمق ایس ایچ او کو بلا کر اتنا ضرورپوچھیں کہ اس ملک میں کتاب پڑھنا کب سے جرم بن گےا ہے؟ انہیں یہ بتائیں کہ خوشونت سنگھ کون تھا اور ان کی کتابیں ابھی تک پابندی کی زد میں نہیں آئیں اور نہ ہی ان کی کتابوں سے انتہاپسندی پھیلنے کا خدشہ ہے، البتہ ان کی کتابوں سے روشن خیالی خوب پھیل سکتی ہے، کیونکہ سردار صاحب بڑے کھلے ڈُلے انداز میں لکھا کرتے تھے اور اگر ہوسکے تو وہ اپنی فورس خصوصاً ایس ایچ او تھانہ بھاٹی گیٹ کو اتنا تو بتا دیں کہ کراچی سے چھپنے والے اخبار میں نوکری کرنے کے لئے کراچی جانا ہر گز ضروری نہیں ہے ۔اخبارات اور ٹی وی چینلز نے ہر شہر میں اپنے نمائندے رکھے ہوتے ہیں ،جس طرح ہم گزشتہ چار سال سے لاہور میں ”امت“کے نمائندے ہیں۔دوسری گزارش یہ ہے کہ ملّا ضعیف کی خودنوشت جیسی کتابیں اور ملکی و غیر ملکی کالعدم تنظیموں کے بارے میں پڑھنا اور جاننا بھی ایک صحافی کی مجبوری ہے کہ اگر وہ طالبان ،القاعدہ ،داعش ،حزب التحریر وغیرہ کے بارے میں کچھ پڑھے گا نہیں ،تو لکھے گا کیسے اور پھر ملا ضعیف کی خود نوشت اور دینی پرچے ہر بڑے کتب فروش کے پاس دھڑلے سے فروخت ہوتے ہیں اور ان پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔اسی طرح اگر ختم نبوت کے موضوع پر کوئی کتاب یا دینی پرچہ پڑھنا جرم ہے تو پھر ارباب اختےار کو سب سے پہلے آئین پاکستان پر پابندی لگانی چاہیے جس میں سات ستمبر 1974ءکو پارلیمنٹ میں پاس ہونے والی آئینی ترمیم موجود ہے۔ سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کو بھی دہشت گرد قرار دینا چاہیے کہ امتناع قادیانےت آرڈنینس انہی کے عہد میں جاری ہوا تھا ۔پولیس حراست میں ہم پر یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پکڑے گئے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بعض پولیس افسران یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پکڑا گےا شخص کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے؟ اگر بدقسمت شخص کسی مخالف فرقے کا ہو تو پھر اس کے بارے میں رپورٹ بڑی ”محنت “سے تےار کی جاتی ہے تا کہ اسے لمبے عرصے کے لئے اندر بھیجا جا سکے۔کیا اس طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ اور کچھ دےگر ادارے خود ہی ملک میں فرقہ واریت کو فروغ نہیں دے رہے ہیں؟ شاید ہم ےہ ساری داستان بیان نہ کرتے کہ ہمیں ہیرو بننے کا کوئی شوق نہیں ،لیکن یہ چند جملے صرف ارباب اختےار کو اس جانب متوجہ کرنے کے لئے رقم کئے ہیں کہ خدارا! وہ اگر ملک و قوم پر نہیں تو اپنے حال پر رحم فرمائیں ۔اس طرح کی اندھا دھند کارروائیوں کے باعث نہ صرف عام آدمی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے بلکہ مجموعی طور پر بھی ملک میں گھٹن کی فضا بن رہی ہے ۔اس سے نہ صرف حکومت اور قومی اداروں کی ساکھ شدید متاثر ہو رہی ہے بلکہ نیشنل ایکشن پلان کو حاصل ہونے والی عوامی حمایت میں بھی کمی آ سکتی ہے ۔عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کس طرح کا نیشنل ایکشن پلان ہے جس میں دہشت گردوں سے تو صرف نظر کیا جاتا ہے اور قانون پسندشہریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ۔اگر ارباب اختےار نے اس جانب فوری توجہ نہ دی اورپولیس اسی طرح لوگوں کو ایس ایم ایس کی بنےاد پر یا دینی کتابیں پڑھنے کے جرم میں پکڑتی رہی تو پھر عام آدمی بزبان ِ ساغر صدیقی یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ
پتھر بندھے ہیں ،سگ ہیں کھلے جس کے شہر میں

وہ بے نےاز وقت کا سلطاں ہے آ ج کل
پتھر کھلائیے انہیں یا گھن کھلائیے
سارا وطن حضور کا مہماں ہے آ ج کل

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے