بحث اور اختلاف کرنا سیکھیے

آج کل انکشافات کا دور دورہ ہے، معلومات کا سمندر ہے، مگر حقیقت کا بحرِ بیکراں جوہڑ بنتا جا رہا ہے- کسی بھی انسانی سماج میں اختلافِ رائے کا خاتمہ ناممکنات میں سے ہے- مثلاً مذاہب کے درمیان اختلافات، ایک مذاہب کے فرقوں کے درمیان اختلافِ رائے، ایک ہی فرقے کے لوگوں کو بھی بعض معاملات میں اختلاف ہوتا ہے. لہذا اختلافات کے وجود سے انکار ایک غیر منطقی سی بات ہے. مگر مناسب امر یہ ہونا چاہئے کہ اختلاف کو باعثِ تحقیق بنایا جائے. اسی وجہ سے میری نگاہوں میں اختلاف باعثِ برکت بات ہے. یہاں اِس حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اختلافات کی موجودگی میں "بحث” کی روش کو فروغ دیا جائے. دلائل دیئے جائیں، شعوری و عقلی نکات پیش کیے جائیں. غور و فکر کی عادت کو اپناتے ہوئے علمی سوالات اٹھائے جائیں تاکہ سچائی تک رسائی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگ شراکت دار بن سکیں.

مگر آج دلیل کی راہِ راست سے روگردانی کا عہد ہے اور انکشافات کا زمانہ ہے. انکشافات بھی وہ جن کا ماخذ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ. اِس کے علاوہ اِن "انکشافات” اور حیران کُن "معلومات” کو اخباری کالموں و الیکٹرانک میڈیا کے صحافی نما اداکاروں کی گفتگو سے اخذ کیا جاتا ہے. عجیب و غریب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اپنے موقف کی تائید کرتی ہوئی بات، سٹیٹس، پوسٹ یا ٹوئیٹ نظروں میں آ جائے تو بِلاتحقیق و تمیز اُسکو آگے بڑھانا فرضِ عین بنا دیا گیا ہے. بعض باتوں کے ذیل میں تو یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ آگے نہ بڑھایا گیا تو آپکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا. اِس پہ مستزاد یہ کہ اگر کسی طرح اپنی غلطی یا غلط معلومات کا ادراک ہو بھی جائے تو پھر شخصی اَنا آڑے آ کر معاملے کو مزید بدبودار بنا دیتی ہے. پھر آہستہ آہستہ وہی غلط بات یا غلط فہمی آگے بڑھتے بڑھتے "سچائی” بن جاتی ہے. اِس طرح سچ اور حقائق کالم نگاروں کی موشگافیوں، اینکروں کی اداکاریوں، فیس بُک کی پوسٹوں اور ٹوئیٹر کی ٹوئیٹوں کے نیچے دب کر جان دی دیتے ہیں.

"جی جناب میں یہ سب اچھی طرح جانتا ہوں، اور اس معاملے میں مجھے تفصیلی علم ہے”، یہ آج کل بحث کا عمومی فقرہ ہے. اگر بحث کرنے والے سے اُسکے "تفصیلی علم” کا ماخذ پوچھا جائے تو فیس بک کی کسی پوسٹ یا کسی "روشن ضمیر” کالم نگار یا اینکر کا نام سننے کو ملتا ہے. ابھی پچھلے دِنوں ایک صاحب لبرل طبقے کو لتاڑانے کا پروگرام رکھتے تھے تو یہ پوسٹ لگائی: "سٹالن اور ماؤ جیسے لبرل کروڑوں لوگوں کے قاتل ہیں”. یقین کیجیے میں سکتے میں آگیا، آخر اِنکو کس نے بتایا کہ جوزف سٹالن اور ماؤزےتنگ لبرل تھے؟ جواب میں فیس بک کے ایک مشہور مذہبی "پیج” کا نام لیا گیا. پھر پتہ چلا کہ اس بات پر کئی لوگ یقین رکھتے ہیں۔ اِسکے بعد میں نے منہ بند رکھنا ہی مناسب سمجھا اور خود کو کوستا رہا کہ ایسے ہی خواہ مخواہ کتابیں پڑھ کر اپنی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ڈال لیے ہیں. کیا یہ علمی بدقسمتی نہیں کہ علم کے سمندروں کی اصطلاح جوہڑوں کے لئے کیوں استعمال ہو رہی ہے!

آج ہماری ضرورت تیار شدہ تاریخ، منطق اور تحقیق کا حصول ہے تاکہ ہم اِس سب کو طوطے کی طرح بار بار رٹ کر پر تیقن انداز میں زندگیاں گزر سکیں۔ حتی کہ دوسروں کا نقطہ نظر جاننے کے لئے بھی ہم اصل مصنفین کی کتب پڑھنے کی بجائے اُن تصانیف پہ اپنے پسندیدہ افراد کا تبصرہ پسند کرتے ہیں اور اصل متن کبھی نظر سے گزارنا پسند نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں جب افراد نے صرف اپنے نقطہ نظر کی حمایتی "معلومات” کا رٹا لگایا ہوا ہوگا تو اُن افراد کیلئے کبھی بھی "اینٹی تھیسسز” کا جواب تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا. اِس صورتحال کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افراد کے پاس دلائل کی کمی ہوجاتی ہے، گفتگو میں شدت آتی جاتی ہے اور بات دُشنام طرازی پہ جا نکلتی ہے، جِس کا مزید گھٹیا نتیجہ نکلتا ہے یعنی ذہنیت مزید محدود ہو جاتی ہے. ہمارے معاشرہ میں ایسے ذہن فروشوں کا غلبہ ہے جو مخصوص گروہوں کے لئے کام کرتے ہیں. اُنہی کے نظریات کے پروپیگنڈہ پہ تسلسل کے ساتھ تحریر و تقریر کرتے ہیں. پھر اپنی بات کی توثیق کے لئے کہیں سے کچھ بھی مل جائے بلاتحقیق آگے پیش کر دینا اُن لوگوں کی ایک تحت الشعوری عادت سی بن جاتی ہے۔ پھر حوالہ در حوالہ اور بحث در بحث قوم میں بڑے گروہ بن جاتے ہیں جو توثیق و تصدیق کے لئے ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانا اور انہی نظریات کا پرچار ناگزیر جانتے ہیں۔ اس نقار خانے میں اِکا دُکا طوطی کی سننے کی بجائے ان پر اعتراضات اور الزامات کا طومار باندھ دیا جاتا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ‘معلومات‘ حاصل کرنے کے لئے جن ویڈیوز اور چنیدہ لکھاریوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ بھی اسی مخصوص فکر کی نمائندگی کرتے ہیں تو خواہش و جستجوئے تحقیق آپ خود سمجھ سکتے ہیں کتنی شدید ہوگی۔

سماج کو علم و فکر کے اسی ابتدائی مقام سے بلند نہ کرنے کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ معاشرہ میں عدم برداشت اور علم سے دوری فروغ پاتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں اُن تنظیموں اور افراد کے لئے قدم جمانا بہت آسان ہوتا جارہا ہے جو اس عدم برداشت کا ایسے مداوا کرتی ہیں کہ افراد کو عملی طور پر مخالفین کو نقصان پہنچانے کا موقع بہم پہنچاتی ہیں۔ حالیہ گرفتاریوں اور تحقیقات میں یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ باقاعدہ طور پر اداروں سے پڑھے لکھے نوجوان ایسی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تحقیق صرف اداروں میں پڑھ کر سند لینے کا ہی نام نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ انٹرنیٹ اور ایسے ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے مگر ایسی معلومات حاصل کر کے کم از کم ان کی تصدیق ثقہ ذرائع سے ضرور کی جائے۔ اور اگر کوئی دلیل پیش کر رہا ہے تو اسے بیک جنبش ابرو مسترد نہ کر دیا جائے بلکہ اگر ان حوالہ جات کی اصل تک رسائی نہ ہو تو اسی شخص سے اس بارے میں مزید معلومات پیش کرنے کی استدعا کی جائے تاکہ تقابلی سوچ جنم لے سکے۔ ایسی تقابلی سوچ کے نتیجہ میں ہی اصل ریسرچ ہو پاتی ہے نہ کہ چند ذہن فروشوں کی کہی گئی باتوں اور گھڑائے گھڑائے نظریات کے مسلسل اعادے سے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے