قارئین کے سامنے آج کچھ اہم ایشوز لیکر حاضر ہوا ہوں، چونکہ بطور صحافی ہمارا کام حکومتی ، سماجی و عوامی مسائل کو سامنے لانا ہے اس لیے کوشش کی ہے کہ ایسے کچھ مسائل عوام اور ذمہ دار، اداروں کے سامنے لائے جائیں،اس کے بعدحکومت، عوام ،سیاسی ، سماجی ، مذہبی و دیگر تنظیموں ، یونینز اورملکی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہو جائیگا کہ وہ ان مسائل کو حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ چند اہم ایشوز یہ ہیں۔
آزادکشمیر میں سرکاری سطح پرقائم سب سے بڑی اور قدیم خورشید نیشنل لائبریری کی غیر ملکی فنڈ سے تعمیر کردہ عمارت اسے واپس دینے کے بجائے حکومت اسے دوسری ادارے کو دینے پر بضد ہے ۔ حکومت نے تعلیم، ریسرچ و تاریخ سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمارت ڈھائی سال قبل سپریم کورٹ آف آزادکشمیر کو اس کی اپنی عمارت کی تعمیر تک متبادل کے طور پر دی تھی،کتابوں کے لیے مناسب عمارت نہ ہونے کی وجہ سے جگہ کی کمی کے باعث ہزاروں کتابیں اور قیمتی مواد گراونڈ فلور پر پڑے پڑے خراب ہو رہا ہے جبکہ قیمتی کتابیں دیمک لگنے سے ضائع ہو رہی ہیں۔آزادکشمیر کی یہ سب سے بڑی اور قدیم لائبریری 2005ء کے زلزلہ میں تباہ ہوئی تھی۔ 35 ہزار سے زائد کتابوں،جریدوں اور مجلوں پر مشتمل لائبریری کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے اور نایاب کتب کے بچاو کے لیے 2013ء میں نئی عمارت بننے کے بعد اسے ریسرچ اور مطالعے کے لیے کھولا تو گیا لیکن محض ایک سال بعد ہی لائبریری کی عمارت کو ایک دوسرے سرکاری ادارے کو متبادل کے طور پردے دیا گیا تھا ، اب سپریم کورٹ کی اپنی عمارت مکمل ہو جانے کے بعد یہی عمارت دوبارہ لائبریری کو دیئے جانے کی بجائے قانون سازاسمبلی کے اجلاسوں کے لیے اس لیے دی جارہی ہے کہ آزادکشمیرقانون ساز اسمبلی عمارت رواں سال مسمار کر کے نئی عمارت کی تعمیر شروع کی جائے گی۔دوسری جانب 2008 ء میں 15 کروڑ روپے کی لاگت سے آزاد کشمیر میں شروع کیا گیا تحصیل کی سطح پر لائبیریریاں قائم کرنے کا منصوبہ بھی حکومتی عدم دلچسپی کے باعث 8 سال گزر جانے کے بعد بھی تاحال مکمل نہ ہو سکا۔
دوسرا اہم ایشو یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو بیس کیمپ کے طور پر دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے آزادکشمیر میں سرکاری سطح پر قائم کیے گئے ریڈیو اسٹیشنزکا ہے۔ وفاقی اور آزادکشمیر حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے جہاں کشمیر کی مختلف اکائیوں خاص کر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے رابطہ کمزور پڑ چکا ہے۔ وفاقی حکومت نے آزادی کے بعد اپریل 1948 ء کو ریڈیو آزادکشمیر تراڑ کھل کی نشریات کا باقاعدہ آغاز کیا تھا، آزادکشمیر کا یہ پہلا ریڈیو اسٹیشن تین ٹرکوں میں قائم کیا گیا تھا جبکہ مظفرآباد ریڈیو اسٹیشن 1960ء میں قائم کیا گیا لیکن اب ان دونوں ریڈیو اسٹیشنز سے نشریات بند ہیں۔ وفاق میں قائم مختلف حکومتوں نے اپنے اعلانات اور وعدوں کے باوجود آزادکشمیر کے پہلے تراڑ کھل ریڈیو اسٹیشن کو واپس کیا اور نہ ہی مظفرآباد میں قایم سرکاری ریڈیو اسٹیشن میں مضبوط ٹرانسمیٹر لگا کر اس کی روح کے مطابق فعال کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ دوسری طرف آزادکشمیر ٹی وی بھی ڈمی طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ اس میں ملازم تو موجود ہیں لیکن ان کو نہ سہولیات مہیا ہیں اور نہ ہی اس طرف توجہ وفاقی یا آزادکشمیر حکومت کی کوئی توجہ ہے۔ جبکہ پا کستان کے رولز آف بزنس کے تحت وزارت امور کشمیر قائم کرنے کا اصل مقصد تحریک آزادی کشمیر کو مختلف فورمز پر اجاگر کرنا تھا لیکن پاکستان میں موجود اربوں روپے کی کشمیر پراپرٹی سے بھاری آمدن حاحل کرنے کے باوجود اس وزارت نہ نہ تو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور نہ ہی آزادکشمیر میں قائم ان وفاقی ابلاغی اداروں کی بحالی میں کردار ادا کیا۔
تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ آزادکشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل علاقے وادی لیپہ کا زمینی رابطہ بھاری برفباری کی وجہ سے برف کے دوران دوسرے علاقوں سے کٹا رہتا ہے ۔ لیپہ ویلی کو مظفرآباد سے ملانے والا واحد زمینی رابطہ ساڑھے 10 ہزار فٹ کی بلندی سے ہو کر گزرتا ہے ۔ علاقے کا زمینی راستہ بحال نہ ہونے اور لیپہ ٹنل کی عدم تعمیر پر ریشیاں کے مقام پر متاثرین نے گزشتہ ماہ احتجاجی ریلی نکالتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔ مظفرآباد سے 105 کلو میٹر دور 80 ہزار سے زائد آبادی پر مشتمل کنٹرول لائن سے متصل ودی لیپہ اپنے مخصوص حدود اربعہ کے باعث دفاعی اہمیت کا بھی حامل علاقہ ہے۔وفاقی حکومت لیپہ ٹنل بنانے کا بارہا اعلان تو کر چکی ہے چند سال پہلے اس منصو بے کے لیے رقم بھی مختص ہوئی تھی جسے بعد میں سالانہ اے ڈی پی سی نکال دیا گیا تھا۔
چوتھااہم مسئلہ یہ ہے کہ آزادکشمیر میں قایم پیپلزپارٹی حکومت خطے میں تعلیمی انقلاب کے نعرے اور دعوے تو کرتی رہی ہے لیکن اداروں کو معیاری نہیں بنایا جا سکا۔وفاقی ادارے اور اتھارٹیاں ہمارے ان تعلیمی اداروں پر بھروسہ نہیں کر رہے ۔ ایسا ہی کچھ پاکستان انجنیئرنگ کونسل نے کیا، کونسل نے جامعہ آزادکشمیر کو معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ایکریڈیشن دینے سے انکار کرکر رکھا ہے۔ جامعہ کشمیر میں شعبہ سافٹ ویئرانجنئیر نگ کے سینکڑوں طلباء گزشتہ چند سالوں سے اپنی ڈگریوں کی پاکستان انجنیئرنگ کونسل سے ایکریڈیشن نہ ہونے کی وجہ سے سراپا احتجاج رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ جامعہ کشمیر میں 2009ء میں شعبہ سافٹ ویئر انجنیئرنگ کو پی ای سی کے رجسٹریشن کے معیار کے مطابق ماہراساتذہ پرمشتمل الگ فیکلٹی نہیں بناکر دی جائے ۔ایسا ہی حال ہماری دیگر جامعات اور میڈیکل کالجز کا ہے جن کے معیار پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں اور طلبہ و طالبات مختلف تحفطات کا شکار رہتے ہیں۔
یہ چار اہم مسئلے آپ قارئین کے سامنے آچکے ہیں اب آپ اس جاگتے معاشرے کے لوگ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور ان ایشوز پر اپنے طور پر تحقیق و تصدیق کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔