امام شافعی نے فرمایا تھا،’’میں ا پنی بات کو درست سمجھتا ہوں لیکن اس میں غلطی کے امکان کو رد نہیں کرتا اور میں دوسرے کی رائے کو غلط سمجھتا ہوں لیکن اس میں صحت کے امکان کو تسلیم کرتا ہوں ‘‘
ممتاز قادری کی سزائے موت کے بعد جو بحث چل پڑی ہے اس میں اگر امام شافعی کا یہ بنیادی نکتہ ملحوظ خاطر رہے تو سماج ایک خوفناک تقسیم کے آزار سے بچ سکتا ہے۔
جنازے میں، میں بھی شریک تھا۔میں نے وہاں جو دیکھا اس خواہش پر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ صف آرا نظریاتی گروہ جان سکیں ایک عام آدمی کیا سوچ رہا ہے اور وہ فکری گرہیں کھول کر ان سوالات پر غور کریں جو اس واقعے نے جنم دیے ہیں۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد نصر اللہ خان سے میرا رابطہ ہوا۔نصر اللہ خان مذہبی انتہا پسندی کے شدید مخالف ہیں اور پرویز مشرف کو ملک کا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔اس وقت وہ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے راولپنڈی ضلع کے صدر ہیں۔ میں نے سوال کیا ،کہاں ہیں؟۔ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا،’’ نیشنل مارکیٹ بند کروا رہا ہوں ‘‘ ۔میں نیشنل مارکیٹ چلا گیا۔مارکیٹ بند ہو چکی تھی اور خان صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ غم کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ممتاز قادری صاحب کا تعلق محلہ صادق آباد سے تھا۔اس وقت وہاں بہت رش تھا، گاڑی نہیں جا سکتی تھی ۔انہوں نے مجھے موٹر سائیکل پر بٹھایا اور وہاں لے گئے جہاں میت رکھی تھی۔ جس عقیدت سے وہ ممتاز قادری کے گھر کی گلی میں داخل ہوئے ،یہ انتہائی حیران کن منظر تھا۔۔۔۔ماحول ایسا تھا میں کچھ پوچھ نہ سکا لیکن سوالات نے مجھے گھیر لیا تھا۔میں حیرتوں میں ڈوبا گھر پہنچا۔
تھوڑی دیرنہا دھو کرجنازے کے لیے میں گھر سے نکلا ،حالات کی نزاکت کے پیش نظر میں نے پارک روڈ سے ٹیکسی لے لی اور اسے کہا مجھے فیض آباد یا کمرشل مارکیٹ جہاں تک رستے کھلے ہوں لے جاؤ۔نصر اللہ خان سے ملاقات کے بعد میرا تجسس بڑھ چکا تھا اور میں جاننا چاہتا تھا لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ٹیکسی ڈرائیور اب میرا پہلا ہدف تھا ۔میں نے بات شروع کی اور چند لمحوں میں وہ رواں ہو چکا تھا۔’’ دیکھو جی ،سلمان تاثیر نے جرم کیا تھا تو اس کو سزا عدالت سے ہونی چاہیے تھی،دیکھو جی، ایسے تو جس کا جی چاہے وہ اٹھے اور دوسرے کو قتل کر دے،ایسے تو قتل ہونے لگیں تو فساد پھیل جائے نا جی ‘‘۔وہ بولتا جا رہا تھا،ہم فیض آباد سے آگے بے نظیر بھٹو ہسپتال کے قریب پہنچے تو پولیس نے بیریر لگا کر آگے جانے کا رستہ بند کیا ہوا تھا۔میں نے ٹیکسی والے کو پیسے پکڑاتے ہوئے کہا: یہیں روک دو آگے جنازے تک اب لگتا ہے ،پیدل چلنا پڑے گا۔ٹیکسی والے نے مڑ کر دیکھا ’ آپ جنازے پر جا رہے ہیں‘۔میں نے کہا ہاں جنازے پر جا رہا ہوں۔ٹیکسی ڈرائیور نے پیسے لینے سے انکار کر دیا، ’’ دیکھو جی گناہ گار نہ کرو ‘‘۔میں نے پیسے دینے پر اصرار کیا تو اس نے واسطے دینے شروع کر دیے،اس نے میرے ہاتھ میں پیسے رکھ کر اسے سختی سے بند کر دیا اور بچوں کی طرح اچی اچی رونے لگا۔اب کی بار میں مزاحمت نہ کر سکا۔چپ چاپ نیچے اتر آیا۔ میں کبھی مٹھی میں دبے پیسوں کو دیکھتا کبھی دور جاتی ٹیکسی کو۔۔۔۔۔حیرتوں کا ایک نیا جہاں تھا اور میں۔
میں بے نظیر بھٹو ہسپتال کے سامنے کھڑا ہو کر میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا کہ لیاقت باغ تک چل بھی پاؤں گا۔بہار کے دن ہیں اور میں پولن الرجی کا مریض۔لیکن دیکھا کہ سڑک کے دونوں اطراف ایک سیلِ رواں ہے جو لیاقت باغ کی جانب رواں ہے تو ہمت کر کے اس کا حصہ بن گیا۔فریسکو سویٹس سے تھوڑا آ گے پہنچا تو سانس پھول چکی تھی،دم لینے کے لیے میٹرو کے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔بے حال انداز میں سر جھکائے زورزور سے سانس لے رہا تھا کہ ایک لڑکے نے کندھے سے ہلاکر ا پنی طرف متوجہ کیا، حیرت کا ایک نیا جہاں سامنے تھا، اس کے ہاتھ میں گلاس تھا اور گلاس میں دودھ جس میں جام شیریں یا روح افزا ملا تھا۔دائیں جانب نگاہ گئی، ایک کلین شیو نوجوان نے سوزوکی وین میں دودھ کی سبیل لگائی ہوئی تھی اور اس کے رفقاء نبی ﷺ کے مہمانوں کو دودھ پیش کر رہے تھے۔
لوگوں کی اتنی کثیر تعداد میں نے زندگی میں نہیں دیکھی، لیکن حیران کن طور پر کوئی دھکم پیل نہ تھی۔متانت تھی ، کلمہ شہادت کا ورد تھا اور ٹھہراؤ سا تھا ۔جو نسبت لوگوں کو کھینچ لائی تھی اس نسبت کا احترام پورے کمال کے ساتھ موجود تھا۔دو بج کر پندرہ منٹ پر ممتاز قادری کا جسد خاکی لیاقت باغ چوک پر پہنچا جہاں ہم کھڑے تھے، اس چوک سے پنڈال تک اسے مزید بیس منٹ لگ گئے۔صف بندی ہو چکی تھی۔لوگ منتظر کہ اب جنازہ ہو کہ اب لیکن تاخیر ہونا شروع ہو گئی۔سٹیج سے بار بار ’ سنیوں ‘ کو مخاطب کیا جانے لگا تو کھسرپھسر ہونے لگی ہر دوسرے فقرے میں ’ سنی مسلمانوں‘ کی تکرار ہونے لگی تو ایک بزرگ با آواز بلند کہنے لگے’’ مولویوں کو خدا ہدایت دے آج کے دن بھی فرقہ واریت سے باہر نہیں آ رہے ‘‘ ۔ایک دوسری آواز آئی’’ فرقہ واریت نہ پھیلائیں تو کھائیں کہاں سے،انہوں نے ہی ہم مسلمانوں کو رسوا کر دیا ہے ‘‘ ۔اب بحث سی شروع ہو گئی، ایک صاحب بولے ’’سزا ممتازقادری کو ہو گئی حالانکہ اس نے تو جو کیا عشق میں کیا،اصل میں تو سزا ان مولویوں کو ہونی چاہیے جنہوں نے ممتازقادری کو اکسایا ‘‘ ۔ساتھ کھڑے ایک صاحب بولے۔’’بالکل درست کہا،بعد میں خود معافیاں مانگ لیں اور وضاحتیں دے دیں کہ قادری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں،اب اسے پھانسی ہوئی تو انہیں پھر قادری کی یاد آنے لگی،یہ سچے ہوتے تو عدالت میں جا کر بیان دیتے کہ ہاں ہم نے کہا تھا سلمان تاثیر نے توہین کی ہے ،اس لیے قادری کو چھوڑ دیں اورہمیں پکڑ لیں ‘‘ ۔
لوگ صفیں بنائے منتظر تھے کہ جنازہ شروع ہو لیکن سٹیج سے خطابات کا سلسلہ جاری تھا۔ایک آدمی بیزاری سے بولا، ’ او یار جنازہ پڑھا دو پھر چاہے سارا دن تقریریں کرتے رہنا ‘ ۔اتنے میں اعلان ہوا کہ ہم ریفرنڈم کرا رہے ہیں ،اس کے بعد جنازہ ہو گا،معلوم ہوا یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا کہ جنازہ کون پڑھائے۔مجھے یہ بات عجیب سی لگی کہ خلق خدا میلوں چل کر آئی ہے اور مولوی صاحبان سے یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ جنازہ کون پڑھائے گا۔دل کی بات زبان پر آئی تو ایک صاحب بولے ، یہ کاروباری معاملات ہیں بھائی صاحب، ہم اور آپ ثواب کے لیے آئے ہوں گے ،انہوں نے تو فرنچائز کھول رکھی ہیں، ظاہر سی بات ہے جو جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کرے گا اس کی درگاہ خوب آباد ہو گی،چندہ ہو گا، شہید کا نام بیچیں گے یہ، ابھی تو کچھ بھی نہیں ہر شہر میں شہید کا چہلم کرائیں گے اور مال بٹوریں گے، شہید کے بچے سے کوئی نہیں پوچھے گا تمہاری حالت کیا ہے۔
اب جب جنازہ میں تاخیر تھی تو میں نے سوچا آ گے بڑھنا چاہیے،ایک دیوار پر چڑھ کر میں نے نگاہ دوڑائی، مری روڈ پر دائیں بائیں تاحد نظر لوگ ہی لوگ تھے۔میں آگے چلتا گیا اور قریبا ایک کلومیٹر آگے جا کر صدر کا علاقہ شروع ہونے سے پہلے ریلوے پل ہے اس کے قریب پہنچ گیا، اونچی جگہ تلاش کر کے پھر نگاہ دوڑائی، وہی منظر تھا تا حد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے۔تحریک انصاف کے انجینیر افتخار چودھری پر نظرپڑی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اوجھل ہو گئے،یاد آیا ،پینسٹھ سالہ افتخار چودھری صبح کہہ رہے تھے،راستے بند ہوئے تو کیا ہوا، پیدل پہنچوں گا،یہ ٹانگیں اللہ نے دی کس لیے ہیں۔تھکاوٹ اب بڑھ گئی تھی اور چلنا مشکل ہو رہا تھا، میں ایک گلی میں وا قع ہوٹل پر جا کر بیٹھ گیا ۔چائے پی لیکن ویٹر نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔میں حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھتا رہ گیا،مروجہ اخلاقیات کے مطابق اسے آج چائے کے نرخ دس گنا کر دینا چاہیے تھے لیکن وہ پیسے لینے سے انکاری تھا۔
کچھ وکیل حضرات بھی آ کر بیٹھ گئے، یونیورسٹی کے کچھ طالب علم بھی لیپ ٹاپ کا بیگ لٹکائے آ کر بیٹھ گئے،ان کے درمیان گفتگو شروع ہو گئی اور میں تھوڑا اور قریب ہو کر بیٹھ گیا۔سلمان تاثیر نے توہین کی تھی یا نہیں،اس پر اختلافی آراء تھیں،اس پر اتفاق تھا کہ فردکو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے،لیکن یہ سوال بھی اٹھا کہ گورنر کس قانون کے تحت سزا یافتہ عورت کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنسیں کرتا رہا اور قانون کا مذاق اڑاتا رہا۔تعارف ہوا تو میڈیا کے کردار پر بات ہونے لگی۔شرکاء کی رائے تھی کہ خبر کو نہیں روکنا چاہیے تھا ۔یہ رویہ گھٹن اور اشتعال کو جنم دے گا،مارننگ شوز میں جو بے ہودگی ہوتی ہے اسے تو کوئی روکتا نہیں یہاں لاکھوں لوگ جمع ہیں اور میڈیا خبر ہی نہیں دے رہا۔ہوٹل کے مینیجر نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا’’ او دفع کرو جی میڈیا کو ،کیا اویس قرنی نے میڈیا کی نشریات دیکھ کر دانت توڑے تھے ‘‘۔اب کے گفتگو کا رخ وکلاء کی طرف مڑ گیا ، ایک صاحب بولے،اگر ایک جمہوری حکومت میں میڈیا اس طرح قابو ہو سکتا ہے تو یہ مشرف کے خلاف کیسے بھونکتا رہا، معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی اصل کہانی کچھ اور تھی۔
ساڑھے چار بجے کا وقت تھا جب دوبارہ صفیں سیدھی ہونا شروع ہو گئیں،لوگ ہوٹل اور دکانیں کھلی چھوڑ کر بھاگے اور جہاں جگہ ملی صف بنا کر کھڑے ہو گئے۔ اللہ اکبر۔۔۔۔جنازہ کھڑا ہو چکا تھا۔اللہ کی امانت اللہ کے سپرد کی جا رہی تھی۔