قائدین کی بہتات اورعوام کی الجھن

خلیفہ چہارم حضرت علیؓ اپنے مصاحبین کے ساتھ بیٹھے گفت و شنید کر رہے تھے کہ ایک مشیر بولا اے خلیفہ وقت کیا وجہ ہے کہ آپ سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کا دور پرامن تھا آپ کے دور خلافت میں بدامنی ، شورش کیوں ہے؟ حضرت علیؓ نے آہ بھری ، بولے کہ ان کی خوش قسمتی تھی کیونکہ مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میری بدقسمتی ہے کہ میرے مشیر آپ جیسے لوگ ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا قول ہے کہ بادشاہ تنہا تمدن کی تمام مصلحتوں کو سرانجام نہیں دے سکتا لہٰذا ہر کام کیلئے اس کے معاونین ضروری ہیں۔ معاونین وہ ہونے چاہئیں جو اپنے قائد کو لوگوں کے مسائل اور حقائق سے آگاہ کریں نہ کہ چاپلوس بنیں۔ فی زمانہ چاپلوس کامیاب جا رہے ہیں وہ آپ کو اقتدار کے ایوانوں میں بھی ملیں گے اور بیوروکریسی میں بھی، دو انسانوں کے مابین ایسے الفاظ جو سننے والا سمجھے کہ سچ ہے اور کہنے والا جانتا ہو کہ جھوٹ ہے خوش آمد کہلاتا ہے، خوش آمدی نوازے جا رہے ہیں حق بات کہنے والے اور پوچھنے والے ذلیل ہو رہے ہیں کچھ عرصہ قبل وزیر اطلاعات پرویز رشید سے لاہور میں ایک صحافی نے ’’قرض اتارو ملک سنوار‘‘ کے فنڈز کے متعلق پوچھا تو اسے اس کا صلہ terminateکی صورت میں دیا گیا۔

آج کل ہم طلسمات رہبری کے دور سے گزر رہے ہیں پاکستان میں بسنے والے ہجوم میں اتنے قائد پیدا ہو گئے ہیں کہ الامان والحفیظ، ہر قائد اپنے ہجوم کو الگ الگ رستہ دکھاتا ہے ، الگ الگ شعور عطا کرتا ہے، الگ الگ ضرورتیں پیدا کر کے علاج کے الگ الگ طریقے ایجاد کر کے ذہنوں کو الجھا دیتا ہے ، ہر شخص پاکستان اور پاکستانی قوم کو کنارے لگانا چاہتا ہے اور ہر رہنما ایک علیحدہ کنارے کی نشاندہی کرتے ہیں نتیجتاً یہ کشتی منجدھار میں رہتی ہے۔ قائدین کی صف میں تازہ ترین اضافہ ڈاکٹر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کا ہے دبئی سے وہ سیدھے ایئرپورٹ پہنچے وہاں سے ایک کرائے کے گھر میں گئے اور پریس کانفرنس کر ڈالی۔ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم اور اس کے قائد الطاف حسین پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ انہیں ’’را‘‘ کا ایجنٹ قرار دیا ، ڈاکٹر مصطفی کمال 30سال ایم کیو ایم سے وابستہ رہے ۔ کراچی کے ناظم کی حیثیت سے انہوں نے تاریخی کام کیے لیکن ان کی پریس کانفرنس سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ عجلت میں کیا جا رہا ہے ان کی پشت پر کچھ غیر مری طاقتیں ہیں۔ انہوں نے پی پی دور کے سابق وزیرداخلہ رحمن ملک کو رگید ڈالا ، اپنی نئی سیاسی پارٹی بنانے کے علاوہ صدارتی نظام کا بھی مطالبہ کر دیا۔ یہ تمام باتیں انہوں نے قائد کے شہر کراچی میں کیں۔ جی ہاں اسی شہر کراچی میں جہاں چند روز قبل پاکستان کے محبوب وزیراعظم میاں نواز شریف کی اوپننگ بیٹسمین پرویز رشید کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اور انہیں باقاعدہ ایک کلب کی رکنیت دی گئی اس کلب کے اراکین میں امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش، جنرل(ر) پرویز مشرف،سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم، سابق بھارتی وزیر داخلہ چدم برم، دہلی کے وزیراعلیٰ ارند کجریوال بھی شامل ہیں۔

بات ہو رہی تھی قیادت کی اقبال نے قیادت کو جلا بخشی، ہر قسم کے رہنما اقبال کو مانتے ہیں ، اقبال اور قائداعظم کے فرمودات پر ہر قائد کی زبان پر رہتے ہیں ایک رہنما دوسرے رہنما کے خلاف ہیں کچھ عجب صورتحال ہے۔ قیادت وہ ہوتی ہے جو عرصے میں قوم کو نئی سمت دے۔ اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے کر جاتا ہے، قائدین کی بہتات نے قوم کو عجب مخمصے میں ڈال رکھا ہے ، قوم کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس قائد کے پیچھے چلیں،

شریف فیملی کوہی دیکھ لیں ، تیس سال سے ملک کی بھاگ ڈور ان کے ہاتھوں میں لیکن محبوب وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پانچ سال میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کیا جائے، انہیں اپنے کاروبار بنانے کا تو پتہ ہے انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ ھلہ دودھ انڈسٹری پر کس طرح قبضہ کیا جاتا ہے، پولٹری کی صنعت کو کس طرح عروج پر لے جایا جاتا ہے لیکن پتہ ملک کے مفاد کا نہیں چلتا۔

ولی عہد میاں شہباز شریف فرماتے ہیں کہ کرپشن ثابت ہو جائے تو اقتدار سے الگ ہو جاؤں گا۔ وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو جائے۔ اس طرح کے وعدے قوم سے انہوں نے بہت کیے ہیں عملدرآمد کسی پر نہیں ہوا۔ ملک میں ایک طرف اسلام نافذ ہو رہا ہے تو دوسری طرف کچھ اور نافذ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں کہیں مساوات کے چرچے ہیں تو کہیں لبرل ازم کا راگ الاپا جا رہا ہے ملک میں لبرل ازم کے مٹھی بھر پیروکاروں کو ممتاز قادری کے جنازے نے ’’تھلے‘‘ لگا دیا۔ پاکستان میں لبرل ازم رکھنے والا رہنما ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کو ایٹم بم دیتا ہے ، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والا شریف خاندان اس ملک کا مستقبل لبرل ازم میں دیکھ رہا ہے۔ دوسری طرف معاملات اچھے نہیں ہیں اسلام سے محبت بیان کرنے والے اسلام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اپنا نفاذ بھی مشروط رکھتے ہیں۔ نظام مصطفی کے نام پر اپنے عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں، قوم قائدین کی کثرت سے پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے بات کہنے کی نہیں لیکن پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ ایک سادہ لوح پاکستانی کو نبی اکرمؐ کے علاوہ کسی اور قائد کا خواہ وہ قائد اعظم ہی کیوں نہ ہو پیغام سنا دیا جائے وہ بیچارہ کچھ سمجھ نہیں سکتا کہ اسے کس کا حکم بجا لانا ہے ملک دگرگوں حالات سے گزر رہا ہے قیادت اپنے اللوں تللوں میں مصروف ہے جب قوموں کے اندر وحدت نہ رہے تو اس انتشار کی سزا نامعلوم خطرے کی شکل میں موجود رہتی ہے آج ہم خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ہمارے دروازے پر خطرہ دستک دے رہا ہے ہم کرب سے گزر رہے ہیں ، مکینوں کو اپنے مکان میں سکون نہیں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں کوئی نہ کوئی خطرہ موجود ہے آج ملت کو قائدین کی کثرت کے باوجود کسی ایسے مرد حق قیادت کا انتظار ہے جو ہجوم کو قوم میں بدل کر سیدھی راہ پر لے جائے جو راز پنہاں سے بھی باخبر ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے