وہ خوبصورت تھی ، بس اس لیے

اس کی سبز گہری آنکھوں میں تیرتے آنسو میرا سینہ چھلنی کر رہے تھے ۔کتنی خوبصورت تھی وہ ، لب و لہجہ بھی صاف ، انگریزی کے لفظ بھی استعمال کرتی اپنے ساتھ گزرے 6 سال کی داستان سنا رہی تھی ۔افغانستان سے کب کیسےسرحد پار پہنچی اسے نہیں معلوم ، بس پتہ ہے تو اتنا کہ اس کا سوتیلا باپ کبھی کبھار دارلامان ملنے آجاتا۔

یہیں پلی بڑھی ، پھر دالامان کی ایک کارکن کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ابھی عمر کی 17 ویں بہار میں قدم رکھا ہی تھا کہ اس کی سہیلی عرفانہ نے اسے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ شادی کے سہانے سپنے دیکھائے ۔ اور کو ئی راستہ بھی نہ تھا لہذا اس نے انجانے رستوں پر چلنے کی ٹھان لی۔

شادی کا پہلا مہینہ تو ہنسی خوشی گزرا ، پھر وقت کے ساتھ شوہر بھی بدلنے لگا ۔آئے روز مار پیٹ معمول بن گیا ، وجہ تھی اس کی خوبصورتی ، کوئی اسے دیکھ کر مسکرایا کیوں ؟ کیا بات کر رہی تھی ؟ تم ٹھیک عورت نہیں وغیر وغیرہ ،، شک کی ابتدا میں ہی ظلم کی انتہا کر دی ۔ایک سال گزرا تو اللہ نے بیٹے سے نوازا ،،ظلم و ستم میں کمی نہ آئی۔اگلے سال بیٹی کی رحمت اتری تو یہ بھی اسی کا قصور ٹھہرا ۔

دیور دبئی سے آیا تو اسے مظلوم بھابھی کا حسن بہت بھایا ۔شراب کے نشے میں دھت ایک رات اس کے کمرے کا دروازہ توڑ کر اند ر گھس آیا ۔اس نے شور مچایا ، شوہر کہیں سے آیا اور پھر کیا ہونا تھا ۔

غیرت جاگی ،الزام تھا بدچلنی ، مٹی کے تیل کا بڑا کین اٹھایا ، اور اس پر ڈال دیا ۔ماچس لینے گیا تو اس نے بھاگ کر جان بچائی ۔پناہ گاہ ہے اسلام آباد کا ایک شلٹر ہوم ، بچے بھی چھین لیے ، کچھ نہ بچا ۔

22 سالہ اس معصوم خاتون کا کوئی ایک نام نہیں ، یہ ہر اس گھر میں ظلم کی چکی میں پس رہی ہے جہاں اسی سوچ کا راج ہے کہ جس کے سر پر باپ ،بھائی،بیٹا یا کوئی مرد رشتہ دار نہیں ۔

اس کے لئے گھر کی چاردیواری بھی غیر محفوظ رہے گی ۔چاہے سال کا ہر دن خواتین کے نام سے ہی کیوں نہ منسوب کر دیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے