8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے. ورکنگ وومن بالخصوص اس دن کا اہم حصہ ہوتی ہیں.دنیا بھر میں خواتین کی خدمات کے اعتراف میں اس دن کو منایا جاتا ہے. پچھلی صدی کے اوائل میں اس دن کو باقاعدہ منانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا. باقی دنیا کی طرح ہم پاکستان میں بھی اس دن کو منائیں گے. لیکن ایک منقسم معاشرے اور قوم کی طرح. آدھے سے زیادہ لوگوں کے خیال میں خواتین کا عالمی دن منانا وقت کا ضیاع اور مغربی تہوار ہے جس سے ہماری ثقافت یا مذہب کا کچھ لینا دینا نہیں.
کچھ لوگوں کے خیال میں یہ خواتین کا عالمی دن سیمینارز یا ٹی وی ٹاک شوز میں بحث مباحث کر کے ٹھیک طرح سے منایا جاتا ہے .جو چیز ہمارے ہاں ہمیشہ ہی نظر انداز ہو جاتی ہے وہ عورت کا تشخص، اس کے وجود کی اہمیت اور اس کی زندگی ہے. دنیا بھر میں خواتین کے حوالے سے عالمی سطح پر دن منانے کا مقصد عورت کی دنیا میں خدمات کا اعتراف اور اس کے وجود کی کسی بھی دوسرے زی روح جتنی ہی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے. ہم کیونکہ گند صاف کرنے کےبجائے کارپٹ کے نیچے گند جمع کر کے گندگی چھپانے کے شوقین ہیں اس لییے ایسے عالمی دن ہماری سوچ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتے. اور ہم اپنے آپ کو یہ دھوکہ دے کر تسلی کر لیتے ہیں کہ یہ عالمی دن خواتین کو بے حیا بنانے کیلئے منایا جاتا ہے وگرنہ جتنی آزادی ہمارے مذہب یا معاشرے نے عورت کو دی ہے وہ مثالی ہے . حالانکہ صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے.بچی کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے جنازے تک ہمارا معاشرہ قدم قدم پر "پردہ” "غیرت” "مذہب” "روایات” کے نام پر اس کے احساسات اور خیالات کا ہر آن بلاتکار کرتا ہے. آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں عورت کے "وجود ” کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا.پیدا ہوتے ہی اس کے دماغ میں یہ بات گھسا دی جاتی ہے کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد نسل انسانی کی افزائش کے مقصد کے حصول میں مرد کی باندی بن کر جینا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں.
آفرین ہے ان تمام مذہبی اور ثقافتی ٹھیکیداروں پر جو بڑے رعب اور دبدبے کے ساتھ عورت کے حقوق اور مقام کا مذہب اور سماج کے سانچوں میں تعین کرنے میں مصروف رہتے ہیں. خود اپنی پیدائش سے لیکر ہوش سنبھالنے تک عورت کے قدم قدم پر محتاج مرد حضرات جب اس کی زندگی کے مالک بن بیٹھیں اور اپنے لیئے معیار الگ اور عورت کیلئے الگ رکھیں تو تعجب اور حیرت ہوتی ہے. ہم آنکھ ایک عورت کی گود میں کھولتے ہیں اور اس کی آغوش میں دنیا کی سختیوں اور نرمیوں کو پرکھنے کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں.لیکن جونہی بلوغت کی عمر پر پہنچتے ہیں تو ہمیں غیرت اور بے حیائی کا سبق یاد آ جاتا ہے. یہ اور بات ہے کہ قحبہ خانوں میں جانے والے جنسی تسکین کے حصول کی خاطر نشے میں دھت حضرات ہوں ، دن بھر کے تھکے مارے ملازمت پیشہ یا تاجر افراد ہوں یا پردے کے نام پر عورت کو گھر میں قید کر کے رکھنے والے افراد، سب کو دنیا کی تلخ حقیقتوں اور زندگی کی کڑواہٹ سے وقتی طور پر نجات ایک عورت کی آغوش میں ہی آ کر نصیب ہوتی ہے.
جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے بہت عرصہ قبل اس بات کو اپنی تھیوری میں بیان کر دیا تھا کہ مرد ساری زندگی اسی آغوش کو ڈھونڈتا رہتا ہے جس میں پہلی دفعہ وہ آنکھ کھولتا ہے. دنیا بھر میں اس سال خواتین کے عالمی دن کا تھیم "ففٹی ففٹی 2030″ ہے. ایک ایسی دنیا جہاں سن 2030 تک دنیا کی آبادی پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد خواتین پر مشتمل ہو گی. جہاں وسائل تخلیقات کاروبار غرض زندگی کے پر شعبے میں مرد اور عورتوں کا کنٹروبیوشن آدھا آدھا ہو گا. اور ایک طرف ہماری دنیا ہے جہاں آج بھی اس بات پر غور و خوص ہو رہا ہے کہ کیسے سماج میں بسنے والی خواتین کو باندی بنا کر رکھا جائے. کس طرح سے مرد کی حاکمیت کے فرسودہ خیالات و تصورات کو زندہ رکھا جائے. خواتین کے عالمی دن پر دشنام طرازیاں کرتے پڑھے لکھے طالبان مائنڈ سیٹ والے خود ساختہ دانشوروں سے لے کر مذہبی و سیاسی گدھ سب عورت کو کمزور ثابت کرنے کیلئے جس مذہب کی روایات کا سہارا لیتے ہیں خود اس پر ایک فیصد بھی عمل نہیں کرتے. خود ہم سب بھی ابھی تک زمانہ جاہلیت میں بستے ہیں بچے کی پیدائش پر ہماری چھاتی چوڑی ہو جاتی ہے اور بچی کی پیدائش پر ہمارے کاندھے ڈھلک جاتے ہیں.بچے کو اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگے سے مہنگے سکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرواتے ہیں. لیکن بچیوں کو عام سے سکولوں کالجوں میں پڑھوا کر مطمئن ہو جاتے ہیں، کہ آج بھی زیادہ تر افراد کی سوچ یہ ہے کہ بچیوں نے پڑھ لکھ کر آخر کو کرنا ہی کیا ہے گھر بار ہی تو سنبھالنا ہے اس لیئے بس تعلیم کا خانہ پر کرواؤ تا کہ اچھا رشتہ آ سکے.
اسی طرح لڑکا اگر شادی کرنا چاہے تو بلے بلے، یہی خواہش اگر کوئی بچی کر بیٹھے تو غیرت کو ٹھیس مذہب اور ثقافت کو خطرہ برادری میں ناک نیچی. جہیز کی فرمائش سے لیکر دھوم دھڑکے سے لڑکے کی شادی اور لڑکی کی دفع سادگی کفایت شعاری اور جہیز ایک لعنت جیسے نعرے اور بہانے. لڑکا پوری پوری رات گھر سے باہر چاہے نشہ کرتا پھرے یا پھر جنسی تسکین و لزت کا سامان اس کو سب معاف لیکن بچی کو زرا سی دیر باہر سے آتے ہوئے ہو جائے تو اس کی دھلائی اور بے عزتی. غرض ہر رنگ اور ہر روپ میں منافقانہ اور غاصبانہ طریقوں سے دھونس دھاندلی کر کے خواتین کو ہم ڈھور ڈنگر سمجھ کر دباتے ہی جاتے ہیں. فہم سے بالاتر ہے کہ عورت کیا انسان نہیں ہے؟ کیا وہ سانس نہیں لیتی؟ کیا وہ ارمان جذبات اور خواہشات نہیں رکھتی؟ اگر تو اس کو محض مرد کی خواہشات اور آسودگی کی تکمیل کیلئے دنیا میں بھیجا گیا تو پھر قدرت اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی نہ دیتی.لیکن کیونکہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم سوچنے کا یا عقل استعمال کرنے کا کشٹ کبھی بھی نہیں کریں گے اس لیئے کسے فرصت کہ سوچے.ہمارے ہاں بقول امرتا پریتم مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ” مرد نے عورت کے ساتھ ابھی صرف سونا ہی سیکھا ہے جاگنا نہیں”. جس دن ہم عورت سے شہوانی لذت حاصل کرنے کے مختلف طریقے دریافت کرنے کے بجائے اس امر کا ادراک کریں گے کہ یہ عورت سانس لیتی پے خواب دیکھتی ہے اور سوچ و تخیلات میں ہم سے کسی بھی طرح کم نہیں اس دن شاید ہم خواتین کو نہیں بلکہ اپنے معاشرے کو مضبوط کر لیں گے.
میری اولاد میں ایک عدد بیٹی سے بھی خداـنے مجھے نوازا ہے .جس کا نام دعا ہے.خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اپنے معاشرے میں بسنے والی تمام "دعاوں” سے مجھے اتنا ہی کہنا ہے کہ سوال کیجئے ہر منافقانہ طرز عمل اور ہر اس سوچ پر جو آپ کو معاشرے میں پیچھے رکھنا چاہتی ہے.چیلنج کیجئے ان تمام نظریات کو جو آپ کو باندی بنا کر بچے پیدا کرنے والی مشینیں سمجھتے ہیں.اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو بتائیے کہ غیرت بچیوں کو تعلیم نہ دلوانے ان کی جبری شادیاں کروانے ان کو ملازمت نہ کرنے دینے سے متاثر ہوتی ہے نا کہ ان کو پڑھنے لکھنے اور باہر پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں بھیجنے سے. بے حیائی بچیوں کے ارمانوں اور خوابوں کا گلا گھونٹنا ہوتی ہے. نا کہ ان کے ارمانوں اور خوابوں کو پورا کرنا.بتائیے اونچی ناک والوں کو کہ عالمی برادری میں ہماری ناک غیرت کے نام پر اپنی ہی بچیوں کو روز قتل کرنے پر متاثر ہوتی ہے نا کہ بچیوں کے آسکر یا نوبل پرائز جیتنے پر. مرد کی حاکمیت کا درس دینے والوں کو بتائیے کہ حاکم صرف خدا کی ذات ہے باقی سب برابر ہیں.آپ کو ذہنی طور پر کمتر سمجھنے والوں کو بتائیے کہ بینظیر بھٹو،فاطمہ بھٹو مریم نواز، فاطمہ جناح پروین شاکر نرگس موالوالہ ارفع کریم یہ سب بھی خواتین ہیں اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا تسلیم کرتی ہے.ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں معیشت کا پہیہ بھی خواتین کی شرکت کے بنا نہیں چل سکتا.اس لیئے سیاسی ایجنڈہ اور بیانیہ بھی اب خواتین دوارے تبدیل ہو رہا ہے. اب ضرورت ہے کہ ہم اپنا سماجی بیانیہ بھی تبدیل کریں اور خواتین کے وجود سے انکار کے بجائے ان کے وجود کو تسلیم کریں ویسے بھی ہمارے ڈیناہل سے خواتین کا وجود ختم نہیں ہو سکتا. اس دن پر دنیا میں بسنے والی تمام خواتین کو دنیا کو خوبصورت بنانے اور مہذب بنانے میں ان کے حصے پر خراج عقیدت، اور وطن میں بسنے والی تمام "دعاوں” کے نام نیک تمنائیں اور "دعا”.