وجودِ زن سے ہے تصویرِ اصفہان میں رنگ
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایرانی خواتین کو خراج تضحیک پیش کرتی ہوئی میری ایک تحریر حاضر ہے
ویسے تو ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر ایران میں ہر مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے چاہے وہ کامیاب ہو یا ناکام۔ ایران میں عورت اور مرد کا تناسب وہی ہے جو ایک بے ایمان افسر کی آمدنی میں بالترتیب حرام اور حلال کا ہوتا ہے۔ یہاں اگر انتخابات صنفی بنیادوں پر منعقد ہوں تو مرد یقیناً مسلم ممالک کی طرح مغلوب رہیں گے۔
انقلابِ اسلامی کے بعد ایرانی معاشرے میں عورت کے وقار اور مقام میں جو اضافہ ہوا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں البتہ عورت نے اس وقار اور مقام سے جو فائدہ اٹھایا وہ ضرور تعارف کا محتاج ہے۔شریعت اسلامی نے جس طرح عورت کو بے شمار حقوق سے نوازا ہے اس کا سو فیصد عملی اظہار ایران میں نظر آتا ہے۔ اصفہان سے اس کی کچھ جھلکیاں لکھ رہا ہوں تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
**۔۔۔ شہر کے اندر چلنے والی مسافر بسوں میں اگرچہ بس کا پچھلا حصہ صنفِ لطیف کے لیے اور اگلا حصہ صنفِ کثیف کے لیے مختص ہوتا ہے مگر اکثر اوقات بس کے اندر لطافتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ ڈرائیور اور اس کے پیچھے کی چند ایک نشستوں کو چھوڑ کر باقی سب پر امریکہ کی طرح انہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اکثر مقامات پر گمان ہونے لگتا ہے کہ کاتبِ تقدیر نے لوحِ محفوظ پر ان کا مقصدِ تخلیق ہی سفر کرنا لکھا ہے۔ سفر پر یہ ہر وقت اسی طرح پَر تولے رکھتی ہیں جیسے دو سوتنیں آپس میں لڑنے پر ہر وقت تُلی رہتی ہیں۔
سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے، اسی لیے بہت سی خواتین ہر سفر کو ظفریابی کا وسیلہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور خود سے کرایہ ادا کرنا شانِ نسوانی کی توہین سمجھتی ہیں، یہاں تک کہ ڈرائیور بے چارہ ہر ایستگاہ (سٹاپ) پر اتر کر بس کے پچھلے دروازے کی طرف آتا ہے اور شریف بدمعاش کی طرح التجا کرتے ہوئے عذابِ آخرت کی دھمکیاں دیتا ہے، تب ایک شانِ بے نیازی سے حاتم طائی کی طرح اپنے پرس سے کرایے کا کارڈ نکالتی ہیں اور کرایہ وصول کرنے والی مشین کے منہ پر دے مارتی ہیں اور مشین ٹُوں ٹُوں کی آواز میں عمر بھر کے لیے ان کی احسان مندی کا اعلان کرتی ہے تو ڈرائیور بِالْأِخْفاء کچھ کہتے ہوئے جا کر اپنی نشست پر براجمان ہو جاتا ہے۔
**۔۔۔ شادی کے وقت حق مہر کے معاملے میں یہ خواتین (اپنے لیے)بہت وسیع القلب واقع ہوئی ہیں۔ عوامی سطح پر ’’Do More‘‘ کی اصطلاح یہاں سمجھ میں آئی۔ طلاق یا میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں پیش آنے والی ممکنہ مشکلات اور خطرات سے بچاؤ کے لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر اتنا حق مہر معین کر دیا جاتا ہے کہ دولہا بے چارہ پہلی بار اپنے مرد ہونے پر اپنے آپ کو اور لڑکی کے والدین کو کوستے ہوئے خدا سے شکوہ کناں ہوتا ہے ؎
مجھ کو مردانہ بنایا، نہ بنایا ہوتا
ایک سو دس طلائی سکّے، جن میں سے ہر سکّہ آٹھ گرام کا ہوتا ہے، متوسط گھرانوں کی دخترانِ نیک اختر کا مہر مقرر کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات دولہے کی تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے لیے چالیس یا چودہ سکے بھی قبول کر لیے جاتے ہیں۔ یہ مہر معجّل یا مؤجّل حسبِ منشأ فریق اول (دلہن) طے کر لیا جاتا ہے۔
مگر پھر بھی اپنے استادوں کی زبان سے یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی طلاق کی شرح تھانیدار کے پیٹ کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
مہر کے معاملے میں اکثر خواتین کسی رُو رعایت کی قائل نہیں ہیں اور عدمِ اطاعت کی صورت میں شوہر کو (ایک فون کال کے ذریعے) پتھر کے زمانے میں دھکیلنے پر تیار رہتی ہیں۔
**۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے لکھا ہے کہ چارپائی پر پڑی ہوئی چادر سے مہمان کی اخلاقی حالت کا پتا بآسانی لگایا جا سکتا ہے، اسی طرح یہاں مرد اور عورت یا لڑکی اور لڑکے کے اکٹھے چلنے کے انداز سے ان کے درمیان پایا جانے والا تعلق اور اس تعلق کی مدت بآسانی معلوم کی جا سکتی ہے۔ یوں کہ:
۱۔ اگر لڑکے اور لڑکی ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چل رہے ہوں تو سمجھو کہ لڑکا تازہ تازہ عمرِ قیدِ ازدواج کا سزایافتہ ہوا ہے اور لڑکی ہمارے یونین کونسلرز کی طرح ابھی ابھی کسی حکومتی عہدے پر فائز ہوئی ہے جہاں حکمرانی اور لُوٹ مار کی ابتدائی مشقوں کے بعد مستقبل میں ملک و ملت کے وسیع تر مفادات کے حصول کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے گی۔
۲۔ اگر ہاتھوں میں ہاتھ دیے بغیر ایک دوسرے کے ہم قدم چل رہے ہوں اور عورت کا پرس اس کے اپنے ہاتھ میں ہو تو یہ پتا چل جاتا ہے کہ ان کی شادی کو تھوڑا سا عرصہ گزر چکا ہے۔
۳۔ اگر عورت آگے چل رہی ہو اور شوہر ایک دو قدم پیچھے اور عورت کا پرس اس کے ہاتھ میں ہو تو سمجھو کہ عورت ترقی کر کے ضلع ناظم بن چکی ہے اور شوہر ’’بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا‘‘ کی منزل سے اتر کر ’’عوام‘‘ میں داخل ہونا شروع ہو چکا ہے اور اگر پرس کے ساتھ ساتھ سامان کے تھیلے بھی اس کے ہاتھ میں ہوں اور تھوڑا اور پیچھے رہ جائے تو سمجھو اب مکمل ’’عوام‘‘ بن چکا۔
۴۔ اگر مرد کے پہلو میں ایک عدد بچہ ہو تو معلوم ہونا چاہیے کہ ازدواج کے کتنے ہی سالوں کے بعد دونوں ایک دوسرے کو میاں بیوی سمجھنے میں سنجیدہ ہو چکے ہیں اور اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ ازدواجی بندھن کو مضبوط کرنے کے لیے کم از کم ایک عدد بچے کا وجود ضروری ہے، کیونکہ یہ لوگ اولاد کے معاملے میں ’’عجلت کارِ شیطان است‘‘ پر غلوّ کی حد تک ایمان رکھتے ہیں۔ جس عمر میں ایک ایرانی جوڑا مولودِ اول کی خوشی سے سرشار ہوتا ہے ہمارے ہاں اتنے عرصے تک ایک جوڑا چارپانچ دفعہ بچوں کی ولادت پر روٹھی ہوئی پھوپھیوں کو منا چکا ہوتا ہے۔
**۔۔۔ خواتین میں رائج احوال پرسی کے جملے بہت مہذّب مگر حکومتی منصوبوں کی طرح بہت ہی طویل ہیں۔ جب دو عورتیں آپس میں ملتی ہیں تو ’’خستہ نباشی، سلامت باشی، دستت درد نہ کنہ، سرت درد نہ کنہ، نوکرتونم، در خدمتِ تونم‘‘ کی تکراری گردان اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ طرفین ہانپنا شروع نہ کر دیں اور اصل مدّعا بیان کرنے کے لیے ایک لمبا سانس لے کر تازہ دم نہ ہو لیں۔
**۔۔۔ گھروں میں روٹی پکانا یہاں کی خواتین کے لیے اسی طرح جان لیوا کام ہے جیسے چوہدری شجاعت حسین کے لیے سامعین کو سمجھ آ جانے والی تقریر کرنا۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا کہ اگر میں قرض لینا چھوڑ دوں تو قرض دینے والے بنیوں کا کاروبار کیسے چلے گا؟ ایسے ہی یہاں عورتیں نانبائیوں کے کاروبار کو خوب گرم رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صبح، دوپہر، شام نانبائیوں کی دکانوں پر لوگوں کا اسی طرح ہجوم رہتا ہے جیسے مرید اپنے پیر کے گرد جمع ہوں۔
**۔۔۔ ہر وقت بناؤ سنگھار میں رہنا یہاں کی خواتین کا سب سے اہم مابہ الامتیاز ہے۔ ایک ایرانی خاتون جتنا وقت اپنی آرائش پر لگاتی ہے اس سے کم وقت میں ہمارے سرکاری اداروں میں میز میز گھومتی ایک درخواست منظور ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے کوچے میں اتنی دکانیں کھانے پینے کے سامان کی نہیں ہوتیں جتنی آرائشگاہیں ہوتی ہیں۔ جہاں بھی کسی دکان کے دروازے پر ’’ورودِ آقایان ممنوع‘‘لکھا ہوا موٹا سا پردہ ہچکولے کھاتا نظر آ رہا ہو تو فوراً سمجھ جائیے کہ اندر قوم کا مقدر سنوارا جا رہا ہے۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان جسارتوں کا سلسلہ یہیں پر روک دیا جائے ورنہ زنانِ ایران کو اگر اس تحریر کی بھنک بھی پڑ گئی تو اپنی انگلیاں کاٹنے کی بجائے مصنف کا گلا نہ کاٹ دیں۔