کیا مولوی صرف تقریریں کرتے ہیں؟

ممتاز قادری خاک نشین ہوئے ۔اس نے قتل کیا تھا اوراسلام کا حکم ہے قتل
کا بدلہ قتل سو بدلہ لیا جاچکاہے۔ اب ان کا معاملہ اللہ کےسپرد ہے
ذات جانے اوراس کا بندہ ،ہمیں یقین ہےکہ اس کےجذبےکوشرفِ قبولیت
بخشا جائے گا۔

عوام کی بڑی تعدادنے ان کےجنازے میں شریک ہوکراپنےذہنی
رجحان کا اظہارکھلےلفظوں میں کردیا ہے۔ممتازقادری کی پھانسی کے
بعدمختلف خیالات کے حامل لوگ اپنے نقطہ ہائےنظربیان کررہے ہیں،بہت سی
باتوں کوخلط ملط کیا جارہا ہےاورسوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا
سلمان تاثیر گستاخ تھے،اگر تھے توسزا کاحق ریاست کو ہے یا فرد
کو؟عہدِرسالت ﷺ اورعہدِ صحابہ میں بھی گستاخوں کو قتل کیا گیا،اگر
ممتازقادری نے قتل کیا تووہ غلط کیوں؟قتل کے فتوے دینے والے خود قتل کیوں
نہیں کرتےاورترکھانوں کے لڑکے ہی ہمیشہ اس سعادت کو حاصل کرتے ہیں
مولوی کیوں نہیں؟ ریمنڈ دیوس کو دیت دے کرآزاد کر دیا جاتا ہے تو ممتاز
قادری کو کیوں نہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔

سلمان تاثیرنےتوہینِ رسالت قانون کے حوالے سےجن تحفظات کا اظہارکیا
تھاوہ بہت سے لوگ اب بھی کر رہے ہیں جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے
چیئرمین مولانا شیرانی جیسے جید عالم بھی شامل ہیں ،کیا انہیں بھی گستاخ
کہ کر قتل کر دینا چاہئے؟

سلمان تاثیر نے  قانون کوکالا قانون کہا جو
کہ غلط ہے مگراس کی سزا بھی قتل نہیں۔اسی طرح ان کی یہ بہت بڑی غلطی تھی
کہ وہ ایک ایسی عورت کو معصوم قراردےرہے تھے جسے ہماری معزز عدالتیں
گناہ گار قراردے چکی تھیں مگراس کی سزا بھی یہ نہیں کہ کوئی بھی اٹھ
کرانہیں قتل کر دیتا۔

اگرسلمان تاثیرکوان بیانات کی وجہ سے گستاخ
قرار دیا بھی گیا تو اس کاحل یہی تھا کہ جس طرح آسیہ مسیح پر مقدمہ دائر
کیا گیا تھا اسی طرح تاثیرکے خلاف بھی دائر کردیا جاتااورمعاملہ
ریاست کےسپرد کردیاجاتا،قانون ہاتھ میں لینے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
عہدِرسالت ﷺ کی جومثالیں دی جارہی ہیں ان میں آ قا ﷺ بطور سربراہِ ریاست
یہ حکم فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں کوقتل کردوچاہےغلافِ کعبہ میں بھی
چھپے ہوں اور کعب بن اشرف کوکون قتل کرے گا ؟

اسی طرح صدیقِ اکبررضی
اللہ عنہ کے پاس ایک گستاخ کو قتل کرنےوالاشخص آکربتاتا ہےکہ امیر
المؤمنین میں نے فلاں گستاخ کو قتل کر دیا تو آپ بطور سربراہِ ریاست
فرماتے ہیں کہ اگر تونہ کرتاتومیں خوداسےقتل کرادیتا ۔

توخدارا
ریاست اورفردکےاقدام کوخلط ملط مت کیجئے۔اسلام نے ریاست کے تقدس کو
ہرحال میں مقدم رکھنےکاحکم دیاہے۔اگرسلمان تاثیرنےریاست کےقانون
کےخلاف تند وتیززبان استعمال کی اورغدارٹھہرےتب بھی مشرف کی طرح اس
پرمقدمہ چلایاجاسکتاتھاایسابھی نہیں کیاگیابلکہ قتل کردیاگیا۔

اس سےنہ ہی شریعت کی پاسداری کی گئی اورنہ ہی اسےشرعی جواز دینےکی
گنجائش ہے۔جہاں تک ممتاز قادری اورریمنڈ ڈیوس کےکیس کاموازنہ کیاجا
رہاہےتوحضور!ریمنڈ ڈیوس نےعبادت سمجھ کرکسی کی جان نہیں لی اورپھر
اس کے چاہنے والوں نے اسے چھڑانے کے لئے سو جتن کئےاور دولت و پیسہ
لگایا جبکہ ممتاز قادری کے چاہنےوالوں نےتاثیرکےگھروالوں سےاس کیس
پربات بھی نہیں کی تو پھرموازنہ کیسا؟

رہی یہ باتیں کہ مولوی فتوے دینےکی بجائےخود قتل کیوں نہیں کرتےاور
بات حضرت بخاری تک لے جائی گئی کہ انہوں نے بھی جوش دلایا تھااورترکھان
کے پترنےجا کےگستاخ کاسرقلم کردیااورخودبھی پھانسی لگا۔اسی طرح
ہی ممتازقادری کامعاملہ ہےکہ قریشی صاحب کی تقریرسےمتاثرہوکریہ
قدم اٹھایا۔قریشی صاحب نے فرطِ جذبات میں آکربہت کچھ کہامگرعدالت میں
ایک بیان حلفی جمع کراکےکنارے لگ بیٹھے،وہ ابھی بقیدِ حیات ہیں ان سے
یہ سوال پوچھاجاسکتاہےکہ انہوں نے یہ’’ سعادت ‘‘خود کیوں نہ حاصل کی

؟حضرت بخاری کی بات سےمتاثرہوکراگرغازی علم الدین تختہ دارپرجھولے
توامیرِشریعت کی زندگی بھی زنان خانوں میں نہیں بلکہ زندانوں میں
گزری۔

مولویوں پریہ اعتراض غلط ہے کہ خودپیچھےرہتےہیں اورغریب بچوں
کوقربانی کا بکرابناتے ہیں ۔تاریخ سےآپ مجھ سےبہت زیادہ واقف ہو ں گے
،بات اگر حضرت بخاری تک لے ہی گئے ہیں تو تھوڑااورپیچھےجھانک لیتےہیں
کہ آزادیءِ ہندکےلئےعام لوگوں سے پہلےعلماء ہی تھےجن کوبوریوں میں
بند کرکے،درختوں سےلٹکاکراورتوپ کےگولوں سےشہیدکیا گیا،مالٹا کے
زندانوں کوانہی مولویوں نےآبادکیا تھا،فرنگیوں کےظلم وتشددکو
یہ بھی سہتے رہے تھے،بالاکوٹ کے پہاڑوں میں مولوی بھی جسم کے ٹکڑے کرا
گئے ۔

پاکستان میں جتنی مذہبی تحریکیں چلیں ان میں ترکھانوں کے لڑکوں کے
ساتھ یہ فتوے دینےوالےبھی قدم بہ قدم رہے۔سیدعطاءاللہ شاہ بخاری
کے فرزند حضرت ابوذر بخاری نے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت
پرصدیوں سے پڑی دھول کو صاف کرنے کے لئے جد وجہد کاآغازکیاتوانہیں
سخت ظلم وستم کاسامناکرناپڑا،اگرانہیں اباجی زنان خانےمیں خاص
احادیث سناتےرہتےتھےتوجبروستم کوبرداشت کرنےکی تربیت کس نےکی ہو
گی ۔؟

،

کراچی میں کئی بڑےبڑےعلماءکرام اندھی گولیوں کانشانہ بنے۔ایک
حدتک یہ بات ٹھیک ہےکہ مذہبی راہنماء خود سکھ سےرہتےہیں اورکارکن
قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتےہیں بلکہ اپناسب کچھ لٹادیتے ہیں مگر
بالعموم یہ بات کہنا قطعی درست نہیں کہ ہربارترکھان کےپترہی کام آتے
ہیں اورمولوی زنان خانوں میں بیٹھےرہتےہیں۔آج بھی زندہ مثالیں موجود
ہیں کہ کارکنوں کےساتھ ساتھ قائدین بھی قید وبندکی صعوبتیں برداشت کر
رہے ہیں ۔

سلمان تاثیرکےمعاملے پرجس رویےکااظہارکیاگیاعلماء کواس طرح
اشتعال انگیزبیانات نہیں دینےچاہئیں جنہیں سن کرکوئی شخص ماورائے
قانون قدم اٹھا ئے۔ریاست کواس کیس کوبھی جلد نمٹانا چاہئےجس کےسبب
سلمان تاثیرکوقتل کیاگیااوراس طرح کےدیگرکیسزجنہیں عدالتوں سے
سزائیں سنائی جاچکی ہیں ان مجرموں کوجلدازجلدکیفرکردارتک پہنچایاجائے
تاکہ موجودہ عوامی اشتعال کوکم کیاجاسکے۔ریاست اورریاستی شخصیات کو
بھی عوامی رجحان کومدِنظررکھناچاہئے،

اسلام اورمسلمانوں کےمسلمہ
معاملات کےخلاف تندوتیزلب ولہجہ اختیارنہیں کرناچاہئےبلکہ
شائستگی اوربات چیت کےذریعےاپنےتحفظات کااظہارمناسب فورمزپرکیا

جائے۔اگرکوئی بھی شہری مسلمانوں کےجذبات سےکھیلےتوریاست فوری طور

پرسخت ردِعمل ظاہرکرےتاکہ پھرکوئی ممتازقادری نہ بنےکیونکہ فرد قانون تب
ہاتھ میں لیتا ہے جب قنون بے حس وحرکت سویا رہتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے