سینئر صحافی،اینکراور نصرت جاوید کے جوڑی دار مشتاق منہاس بالاخر کار زار سیاست میں کود پڑے۔ میاں نواز شریف ،پرویز رشید، آصف کرمانی اور برجیس طاہر سے ان کی دوستی کا اس فیصلے میں بڑا کردار ہے ۔ مشتاق منہاس بنیادی طور پر سیاسی آدمی ہیں ۔ جوانی کے دور میں وہ اسلامی جمیعت طلبہ کے فورم سے بہت متحرک رہے اور اس پر اب بھی وہ فخر کرتے ہیں۔
مشتاق منہاس اپنے آبائی علاقے باغ آزادکشمیر سے آزادکشمیر کے آمدہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور آج کل وہ عوامی رابطہ مہم پر ہیں ۔ یہ تصویر بھی ان کے کسی گاوں کے دورے کے دوران لی گئی۔

مشتاق منہاس بہت متحرک آدمی ہوں گے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمر میں ووٹ برادریوں کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی ہیں جنہیں نظریے کی بنیاد پر نہیں بلکہ برادری کی بنیاد پر بھاری ووٹ ملتے ہیں۔ یہی حال بیرسٹر سلطان ،فاروق حیدر کا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ کشمیرمیں تعلیم کے رجحان کے باوجود تعلیم ووٹر کا کچھ بگاڑ نہیں سکی ۔ وہ ابھی تک برادری ازم کے قلعے میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔
اس صورت حال میں مشتاق منہاس مشکل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ ان کی اپنی برادری کا ووٹ بینک انہیں کامیاب نہیں کرا سکے گا۔انہوں نے باغ میں اپنے پہلے اور بھرپور جلسے میں خود کو ہر برادری کا نمائندہ قرار دیا اور اس پرشرکاء نے نعرے بھی خوب لگائے۔ اچھا ہے وہ اسی طرح آگے بڑھیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون آزادکشمیر کی قیادت ان کی آمدسے بہت خوش نہیں ہے کیوں کہ انہیں مشتاق منہاس کی وفاقی حکومت سے قربت بہت کھٹکتی ہے۔ شروع میں فاروق حیدر بھی کھچے کھچے سے تھے لیکن جب مشتاق منہاس نے انہیں ”میرا قائد” کہا تو ان فاروق حیدر کچھ شانت ہوئے۔ دوسری جانب باغ میں کرنل نسیم مشتاق منہاس کی انٹری سے کافی ناراض لگ رہے ہیں۔ گزشتہ کل انہوں نے ایک گرینڈ جرگہ بھی بلا رکھا تھا۔ دیکھیے اب کہاں تک جاتی ہے داستاں۔
مشتاق منہاس کے بارے میں بعض اہم حلقوں میں یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو محسوس ہوا کہ مشتاق منہاس الیکشن کے ذریعے نہیں جیت سکتے تو انہیں آزادکشمیر کی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران وزیر اعظم بنایا جائے گا یا پھر بعد میں ٹیکنو کریٹس کی سیٹ کے ذریعے ان کی ایوان میں انٹری ممکن بنائی جائے گی۔ تاہم ابھی ان میں سے کسی بھی خبر کی تردید یا تصدیق ممکن نہیں ۔
اگر مشتاق منہاس الیکشن لڑ کر جیت جاتے ہیں تو یہ یقیناً برادری ازم کی سیاست کے خلاف بہت بڑی کامیابی ہو گی اور ریاستی سیاست کا رخ کسی حد تک بدل جائے گا۔