کراچی پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جس کی تاریخی اور معاشی اہمیت اپنی جگہ مگر اس شہر کی عسکری اہمیت سے انکار کرنا حماقت سے کم نہ ہو گا۔ اس شہر کی اگر عسکری اہمیت نہ ہوتی توآج سے کئی سو سال پہلے ایک عرب جنگجو اس کے لمبے پہلے ہوئے ساحل پرقدم نہ رکھتا۔
وہ سندھ میں کسی اور بھی راستے سے آسکتا تھا۔ عرب جنگجو سندھ کے سمندری راستے سے ہی کیوں داخل ہوئے ۔۔۔ ظاہر ہے ایک جنگی حکمت عملی کے تحت ہی سندھ فتح کرنے کا آسان راستہ اختیار کیا گیا ہوگا ۔ اس ساحل سے نہ صرف سندھ فتح کرنا مقصود تھا بلکہ جنوبی ایشیا کہ دیگر ممالک پر بھی معاشی تسلط قائم کرنا عرب دنیا کا اصل مقصد تھا۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے تھے ، عرب سندھ کے ساحل اور اس سے متصل علاقوں ( بلوچستان کا ساحل ، ٹھٹھہ ، بدین ) کی خاص عسکری و معاشی اہمیت سے کافی حد تک واقف تھے ۔
خیر میرا اصل مقصد عربوں کی فتوحات نہیں بلکہ آج کے پاکستان کا وہ ہی ساحل ہے جسے کبھی سینکڑوں سال پہلے اُس وقت کی سپر پاور نے استعمال کیا ۔
اُس وقت کا ساحلی شہر دیبل ۔۔۔ جو کہ سندھ کا معاشی حب تھا ۔ سندھ کو فتح کرنے سے پہلے سندھ کے ساحلی شہر دیبل کو فتح کیا گیااور پھر اسے تباہ بھی کیا گیا۔ معاشی حب دیبل تباہ ہونے سے سندھ معاشی طور پر بلکل ختم ہوگیا اور اس وقت کہ ایشیا کا طاقتور سندھ جنگ کرنے کے قابل نہ رہا۔ پاکستان کامعاشی حب کراچی بھی ہمارا آج کا دیبل ہے۔
ہمارا آج کا دیبل کراچی جسے معاشی طور پر ٹھیک اُسی طرح ختم کیا جا رہا ہے ، آہستہ آہستہ اس شہر کہ ساحل پر تسلط قائم کرنے کی بیرونی کوششیں سامنے آرہی ہیں۔ اگر ہم جنوبی ایشیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ پاکستان کا یہ ساحل تیسری دنیا کا وہ واحد ساحل ہے جو آپ کو جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے خوش آمدید کہتا ہے۔ اب یہ سمجھنا تو آسان ہوگیا کہ عرب اس راستے سے ہی کیوں ایشیا میں آئے تھے۔ کیونکہ یہ ساحل اور اس پر بنی قدرتی بندر گاہ تیسری دنیا تک جانے کا گیٹ وے ہے۔
کراچی کے ساحل سمندر پر موجود بندر گاہ جو کہ قدرت کا پاکستان کو دیاگیا ایک تحفہ ہے ۔ یہ وہ ہی بندر گاہ ہے جس سے سالانہ 2.5 کروڑ ٹن ساماں کی تجارت کی جاتی ہے۔ جو کہ پاکستان کیُ کل معاشی طاقت کا 60 فیصد ہے۔
ذرا سوچیں اگر کسی ملک کی آدھی طاقت کوہی ختم کر دیا جائے تو کیا وہ مقابلہ کرنے کے قابل رہے گا۔۔۔؟
وہ ملک اپنی حفاظت کیسے کر سکے گا جس کی معاشی طاقت ہی ختم ہو جائے ۔
پھر کون ہے جو اس گیٹ وے کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اپنا یہ اپنی مرضی کا گیٹ وے کہیں آباد کرنا چاہتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ بیرونی طاقتوں کی نظروں میں رہا ہے۔
ایسے اور اس طرح کہ بہت سارے سوالات ہیں جو عسکری و معاشی نوعیت کہ معاملات پر نظر رکھنے والوں کے زہنوں میں اٹھتے ہیں۔
اس شہر میں گزشتہ 20 سال سے ہونے والی دہشتگردی کہ پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں ان سب پر اب مستقل مزاجی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرا دیر کو ہم یہ سوچیں کہ اگر اس شہر میں لاقانونیت ، دہشتگردی ، بے امنی نہ ہوتی تو کیا پر امن کراچی ایشیا کا سب سے زیادہ ترقی یا فتہ شہر نہ ہوتا۔۔۔۔۔؟؟؟
یا وہ آج کہ کراچی جیسا ہی ہو تا۔۔؟؟
عسکری طور پر تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے۔ بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اب کون کون ہیں۔
ایک اور بات جس کا یہاں تذکرہ کرنا میں بہت ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ سندھ کا یہ ساحل اور اس ساحل سے لیکر بلوچستان کے گوادر تک کا ساحل تین خطوں ۔ مشرقی وسطٰی ، سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں ملاتا ہے۔
یہ ہی بات بیرونی معاشی طور پر مضبوط طاقتوں کے لیے پریشان کنُ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ساحل نہیں جو ایک ساتھ تین تین خطوں کو آپس میں ملاتا ہو اور اس پر بنی ہوئی کراچی کی وہ بندر گاہ جو پاکستان میں اندرونی دہشتگردی کا شکار ہونے کے باوجود بھی سالانہ 2.5 کروڑ ٹن سامان کی تجارت کر رہی ہے اور اپنی قریب کی بندر گاہوں سمیت ترقی یافتہ ممالک کے لیے کھلا معاشی چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
پھر یقیناً کوئی ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے اس کے دیبل پر عرصہ دراز سے حملے کر رہاہے۔
کراچی میں ہونے والی دہشتگردی کا کوئی تو سبب ہے۔۔۔
اور کوئی تو ہے جو ہمارے ساتھ کاروباری چال چل رہا ہے اور ہمیں مذ ہبی ، لسانی ، سیاسی چکر میں الجھا کر اپنا معاشی فائدہ نکال رہا ہے۔
کوئی تو ہے جو یہ سمجھ گیا ہے کہ ایک کراچی پورٹ نے انہیں جس طرح نقصان دیا ہے اگر گوادر پورٹ بھی بن گیا تو وہ مکمل ختم ہوجائیں گے۔ اگر ہم زرا غور کریں تو ہمیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ ہماری پورٹس ہمارے دشمنوں کے لیے نقصاندہ ہونے سے کہیں زیادہ ہمارے دوستوں کے لیے بھی خطرہ ہیں کیونکہ اس خطہ میں ایک دو کو چھوڑ کر باقی تمام پورٹس ہمارے قریبی دوست ممالک کی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تیسری دنیا کو پر امن کراچی کے ہوتے ہوئے اپنے کنٹرول میں نہیں لا سکتے۔
ہمارے دشمنوں سمیت ہمارے چند کاروباری دوست ممالک بھی جانتے ہیں کہ اگر مشرقی وسطٰی ۔ سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کو مستقل معاشی طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے تو اس کے لیے فوری طور پر پاکستان کی توجہ کراچی پورٹ سے دور ہٹانا ہوگی پھر چاہے اس کے لیے کراچی کے حالات ہی کیوں نہ خراب کرنے پڑیں۔
ٹھیک ویسے ہی جیسے گوادر پورٹ کی تعمیر سے توجہ ہٹا کر بلوچستان کے خراب کیئے گئے ہیں اور توجہ حالات کی طرف کردی گئی۔
خیر کاروبار کے بھی اپنے ہی اصول ہوہتے ہیں۔ دوستی اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ ۔ کوئی کتنا ہی اچھا دوست کیوں نہ ہو کاروبار میں آپ کا دوست نہیں ہوتا۔
ویسے بھی کراچی کے حالات کے پیچھے جس قسم کی مخصوص مافیہ کا ہاتھ ہے وہ مافیہ اکثر خلیجی ممالک میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔
بات گھوم کر پھر عربوں کی طرف آگئی۔
عربوں نے کچھ سوچ کر ہی اس بندرگاہ ( دیبل ) پر قبضہ کیا تھا۔ وہ اتنے بھولے نہیں تھے کہ انہیں اس کی افادیت کا اندازہ نہ ہو ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ خطہ اگر ان کے پاس نہ رہا تو بھی اِس پر اپنا اثر روسوخ قائم رکھنا ہے۔ ورنہ اُنکا کاروبار نہیں چل سکتا۔
ایران نے بھی پاکستانی بندر گاہوں کو چیلنج سمجھتے ہوئے بھارت کے تعاون سے ایرانی بلوچستان میں ایک نئی بندر گاہ کی تعمیر کا کام تیزی سے شروع کر دیا ہے۔ اسطرح بھارت بھی سینٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کے لیے اپنی پسند کا گیٹ وے ایران میں بنا رہا ہے۔ یوں ہمیں بیک وقت ایک نہیں کئی دشمنوں کا سامنا ہے۔ کوئی معاشی دشمن ہے تو کوئی اسٹریٹیجک دشمن۔
مگر اس ملک کے سب سے بڑے دشمن تو ہم خود ثابت ہوئے ہیں۔ کہیں مذہب کہ نام پر لڑتے ہیں تو کہیں رنگ نسل اور زبان کے نام پر تو ہمیں کسی بیرونی دشمن کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔؟؟
جب امن ہوگا تو کراچی ترقی کرے گا ۔۔۔ جب کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔
اور جب ہم امن قائم کرنے میں ناکام ہو گئے تو پھر کچھ نہیں بچے گا ۔