نواز حکومت اور لبرل ازم

ان دنوں عالمی و ملکی ذرائع ابلاغ میں نواز حکومت کی لبرل پالیسیوں کے حوالے سے تجزیے زیر بحث ہیں . نواز حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے قومی ایکشن پلان ، ضرب عضب کی عسکری کاروائیاں ، ممتاز قادری کی سزاے موت پر عملدرامد ، خواتین حقوق کے تحفظ کے لیے پنجاب اسمبلی میں بل کی منظوری اور جنسی بنیاد پر ہراسمنٹ کے جرم کے مرتکب افراد کو سزایں دینے جیسے حالیہ اقدامات بظاھر متذکرہ راۓ کی تصدیق کرتے ہیں .

میاں محمّد نواز شریف بیشتر مرتبہ عالمی و ملکی فورمز پر لبرل ازم کو پاکستان کے لیے نا گزیر قرار دے چکے ہیں
میاں محمّد نواز شریف بیشتر مرتبہ عالمی و ملکی فورمز پر لبرل ازم کو پاکستان کے لیے نا گزیر قرار دے چکے ہیں

نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی شخصیت بھی نواز حکموت کے لبرل چہرے کو مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جبکہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمّد نواز شریف بیشتر مرتبہ عالمی و ملکی فورمز پر لبرل ازم کو پاکستان کے لیے نا گزیر قرار دے چکے ہیں . وزیر اعلی پنجاب میاں محمّد شہباز شریف بھی مسلم لیگ نون کی لبرل پالیسی کو پوری طرح فالو کرتے نظر آتے ہیں .

مریم نواز شریف کی شخصیت بھی نواز حکموت کے لبرل چہرے کو مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے
مریم نواز شریف کی شخصیت بھی نواز حکموت کے لبرل چہرے کو مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے

دوسری طرف اگر پاکستانی سوسایٹی کا جائزہ لیا جاۓ تو حکومتی اقدامات کے بر عکس عملی طور پر لبرل ازم کہیں نظر نہیں آتا .دو تین بڑے شہروں کے مخصوص علاقوں کے علاوہ پورا ملک آج بھی رجعت پسندی ، تنگ نظری اور مذہبی ، فرقہ وارانہ ، نسلی، جنسی ، لسانی ، قومی و برادری ازم کی بنیاد پر جاگیر دارانہ سماج کے تعصبات کی آماجگاہ ہے . جن کے خاتمے کے لیے ابھی تک حکومتی ، عوامی ، علمی ، فکری اور سماجی و سیاسی سطح تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے . جس سے یہ تاثر اجاگر ہوتا ہے کہ عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوے حکومت لبرل ازم کو صرف پراپیگنڈہ کے طور پر استمعال کر رہی ہے .

کسی بھی سماج میں لبرل ازم ، روشن خیالی ، وسیع النظری و کھلا پن صرف ریاستی پالیسیوں ، قوانین ، سزاؤں اور میڈیا کے شور سے وقوع پذیر نہیں ہوتا یہ ارتقائی عمل سماج کے تانے بانے سے جڑا ہوتا ہے . جس کی جڑیں فرد کی انفرادی سوچ سے شروع ہو کر سوسایٹی کی اجتمائی تہذیبی، سماجی و ثقافتی اقدار اور روزمرہ کے انسانی رویوں تک پھیلی ہوتی ہیں . ریاستی قوانین اور اس کی نظریاتی سمت ، عوام کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کے پروگرام لبرل معاشرتی اقدار وروایات کے فروغ یا خاتمہ کے لیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں .

اس ضمن میں پی پی پی کے بانی چیرمین ذولفقارعلی بھٹو کے دور کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے . متذکرہ پی پی پی کا منشور ،پروگرام ، ریاستی قوانین اور پارٹی کی لیڈر شپ لبرل ازم ، کھلے پن ، روشن خیالی اور ترقی پسندی سے جڑی ہوئی تھی جس کے اثرات انفرادی سوچ سے لے کر سماج کی مجموئی فکر پر بھی مرتب ہوے. اسی دور میں ریاستی پالیسیوں کی بدولت آرٹ ، کلچر و ادب میں شاندار تخلیقات منظر عام پر آئیں اور سوسایٹی میں رواداری ، برداشت و بھائی چارے کی اقدار و روایات فروغ پزیر ہوئیں .

پی پی پی کے بانی چیرمین ذولفقارعلی بھٹو کے دور کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے
پی پی پی کے بانی چیرمین ذولفقارعلی بھٹو کے دور کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے

بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد پاکستان میں ضیاء آمریت کے جبر کی حکمرانی ہوئی تو نفاد اسلام کو عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے قدامت پسندانہ سخت گیر نظریات و افکار ریاست کے قوانین پر مسلط ہوتے گۓ جس سے فرقہ واریت ، مذہبی ، قومی ، لسانی تعصبات انفرادی و اجتمائی فکر و شعور پر غالب آتے گۓ. پاکستان کی ریاست و سماج تنگ نظری ، انتہا پسندی اور متشدد رجحانات کی دلدل میں پھنسنے لگا .

 ضیاء آمریت کے جبر کی حکمرانی میں قدامت پسندانہ سخت گیر نظریات و افکار ریاست کے قوانین پر مسلط ہوتے گۓ
ضیاء آمریت کے جبر کی حکمرانی
میں قدامت پسندانہ سخت گیر نظریات و افکار ریاست کے قوانین پر مسلط ہوتے گۓ

انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کی کوکھ سے جنم لینے والے قانون ساز اداروں نے ضیاء کے اسلامی نظام کے غلبہ کے لیے ذولفقار علی بھٹو کے بناۓ آئین کو اسلامی رنگ و روپ دینے کے لیے بہت سی ترامیم کیں اور نئی قانون سازی بھی کی تاکہ پاکستانی سماج ان کے خود ساختہ اسلامی شعار و اخلاق کا گہوارہ بن سکے . ان منافقانہ ریاستی پالیسیوں نے سماج اور فرد کو تضادات میں الجھا دیا جس کے نتیجہ میں متشدد رویے مستحکم ہوتے گۓ.

ضیاء دور کے خاتمہ کے بعد بحالی جمہوریت کا سفر بھٹو کی بیٹی شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں شروع ہوا . ماڈرن و لبرل فکر و سوچ کی پی پی پی اور اس کی لیڈر سے عوامی توقعات تھیں کہ ان کی پارٹی پاکستان کی ریاست و سماج کا وہ رنگ و روپ واپس لاۓ گی جو اس پارٹی کے بانی نےعوام کی امنگوں کے مطابق اسے پہنایا تھا. سادہ اکثریت نہ ہونے کی وجوہ پر ایسا ممکن نہ ہو سکا . بینظیر بھٹو نے مصالحت کا جو راستہ اپنایا تھا اس پر چلتے ہوے ضیاء کے رائج کردہ ریاستی قوانین و نظریات کی پیروی ضروری تھی لہٰذا ویسٹرن بینظیر بھٹو بھی لبرل ازم کو چھوڑ کر پاکستانی ریاست کے تنگ نظری و رجعت پسندی کے نظریات پر گامزن ہو گئی .

بینظیر بھٹو کو مصالحت کا راستہ اپنانا پڑا
بینظیر بھٹو کو مصالحت کا راستہ اپنانا پڑا

پی پی پی کے بعد ضیاء الحق کے سیاسی و نظریاتی جانشین نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوے تو ریاست پر ایک بار پھر ضیاء کے نظریات غلبہ پا گۓ .لبرل ازم تو اس دور میں کفر کا دوسرا نام تھا . مشرف کی نیم جمہوری آمریت میں بھی لبرل ازم کے چہرے کے ساتھ ملا ملٹری اتحاد کے نظریات ریاست پر حکمرانی کرتے رہے .

انیس سو ستتر سے لبرل ازم کے خاتمہ کے لیے متحرک پاکستانی سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ کا یہ طویل کھیل عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات کے لیے بھی خطرہ بننے لگا تو پاکستان کی منتخب و عسکری طاقتوں کو ان کی طرف سے وارننگ جاری ہوئی کہ اگر پاکستانی ریاست کو بچانا ہے تو اپنی فکر و سوچ اور حکمرانی کے انداز و اطوار کو بدلو . ان دنوں اسی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان میں لبرل ازم کا دور دورا نظر آ رہا ہے لیکن مصنوئی و بناوٹ زدہ تاہم نواز حکومت اس ضمن میں کسی حد تک متذکرہ بالا اقدامات کی وساطت سے عالمی طاقتوں کے سامنے پاکستان کا لبرل چہرہ پینٹ کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے

نواز شریف اگر حقیقی معنوں میں اپنی پارٹی کو ایک لبرل جماعت کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں بھی عالمی طاقتوں کے فیورٹ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی پارٹی میں بڑی نظریاتی تبدیلی لانا ہو گی . ان کی جماعت بر صغیر کے لبرل لیڈر محمّد علی جناح کا ورثہ ہے . نواز شریف ضیاء الحق کے نظریات کو ایک دہائی قبل خیر باد کہہ چکے ہیں اب انہیں ضیاء کی مسلط رجعت پسندی سے بھی مسلم لیگ نون کو بچانا ہو گا اور لبرل جناح کے ویژن کو مشعل راہ بنانا ہو گا . اس ضمن میں ان کی حکمران جماعت کو قانون سازی بھی کرنا ہو گی اور پاکستان کے آئین سے ضیاء الحق کے لاۓ ہوے عوام دشمن و رجعتی قوانین کو ختم کرنا ہو گا . اس ضمن میں لبرل اپوزیشن جماعتوں کا تعاون بھی انھیں آسانی سے حاصل ہو جاۓ گا .

میاں نواز شریف اگر لبرل پاکستان چاہتے ہیں تو انھیں آئین سے شدت پسندی کو فروغ دینے والے تمام قوانین کو ختم کرنا ہو گا انھیں ایسی ثقافتی ، سیاسی و سماجی اقدار و روایات اور نظام تعلیم کو پھلنے پھولنے کے مواقع دینے ہوں گے جو رواداری ، تحمل و آزادی اظہار راے کی ضامن ہوں بصورت دیگر نواز حکومت کا حالیہ لبرل ازم ایک سراب سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہو گا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے