شاہد آفریدی نے دو دن پہلے کلکتہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھارت میں کھیل کر بہت مزا آتا ہے اور اپنے وطن سے بھی زیادہ محبت بھارت میں ملی ہے۔
اس بیان پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ، سوشل میڈیا پر تو ری ایکشن ہوتا ہی رہتا ہے ، یہاں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں ، جذبات کا غلبہ ہوجاتا ہے ، آفریدی کے خلاف بھی پوسٹوں کا ایک تانتا بندھ گیا ، ادھر ایک صاحب نے عدالت میں مقدمہ دائر کر ڈالا۔
ایک خاص کلاس ایسے لوگوں کی ہوتی ہے ، جو بات بات پر عدالت پہنچ جاتے ہیں ، ان میں سے اکثر خود ہی وکیل ہیں اور واحد مقصد پبلسٹی حاصل کرنا ہوتا ہے ، آفریدی کے بیان پر سب سے زیادہ ردعمل جاوید میاں داد نے ایک ٹی وی چینل پر پروگرام میں دیا ۔ میاں داد نے باقاعدہ ہاتھ کے اشارے سے لعنت دی اور پھر اسے مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ لعنت ہو ۔
سرائیکی میں ہاتھ سے لعنت دینے کے اس اشارے کو بوجا یا بجا دینا کہتے ہیں اور اسے بہت برا سمجھا جاتا ہے۔آفریدی پر کئی اور ٹی وی پروگراموں میں بھی تنقید ہوئی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس تنقید کی کوئی تک سمجھ نہیں آئی ۔ شاہد آفریدی پر ہر قسم کی تنقید ہو سکتی ہے ، اس کے کھیل ، کپتانی کے حوالے سے میں خود بھی بہت بار تنقید کرتا رہا ہوں ، کئی لوگ ایسے ہیں جن کی شدید خواہش ہے کہ آفریدی ان فٹ ہوجائیں تاکہ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر رہے ، جس طرح کل سے محمد سمیع کے زخمی ہونے پر باقاعدہ خوشی منائی جا رہی ہے ۔
شاہد آفریدی کی حب الوطنی پر البتہ کسی بھی قسم کا شک کرنا پرلے درجے کی جہالت اور شرمناک حرکت ہے۔ شاہد آفریدی ہر اعتبار سے محب الوطن کھلاڑی ہے ، جس نے کبھی میچ فکسنگ میں حصہ نہیں لیا ، قوم کو بیچا نہیں اور نہ ہی اس غیرت مند پٹھان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی بے توقیری کرے گا۔ ایسی بات کرنا بدترین تعصب اور گھٹیا پن کے مترادف ہے۔
شاہد آفریدی کا یہ بیان ایک خاص تناظر میں ہے ، اس نے اپنی طرف سے شائستگی برتتے ہوئے ایک مثبت ، دل خوش کن بیان دینے کی کوشش کی۔ الفاظ کا چناؤ ممکن ہے زیادہ بہتر نہ ہو ب، مگر آفریدی کوئی مقرر ، رائٹر یا دانشور تو ہے نہیں ، کرکٹر ہے ، اگر اس کی زبان پھسل گئی تو کون سا مسئلہ کھڑا ہوگیا ؟ ویسے بھی اس قسم کے فقرے کو لفظی معنی میں نہیں لیا جاتا ، یہ محاورتاً بات ہوتی ہے ۔
مطلب یہی تاثر دینا ہوتا ہے کہ میں میزبانوں کے رویے ، سپورٹ سے مطمئن ہوں۔
پاکستان آنے والے کئی بھارتی فنکاروں نے ایسی باتیں کی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اوم پوری پچھلے سال آئے تھے تو انہوں نے بھی ایک جگہ پر ایسی بات کر دی کہ جتنی محبت پاکستان سے ملی ، اتنی تو بھارت میں نہیں ملی۔
ظاہر ہے یہ خوش اخلاقی جتانے کی ایک کوشش تھی، میزبان پاکستانیوں کو خوش کرنے کی ایک سعی، جیسے انگریزی میں کہتے ہیں، ٹو بی نائس ودھ پیپلز ۔ ویسے بھی اگر اپنی عقل کو استعمال کر لیا جائے تو کچھ نقصان نہیں۔ یہ سوچنا چاہیے کہ آخر آفریدی ایسا بیان کیوں دے گا ؟ بھارت میں کون سے ایسے سونے کے تاج پہنائے گئے ہیں کہ وہ ان کے آگے بچھ جائے گا۔ شعیب اختر وغیرہ کھیل رہے تھے، تب بھی بالی وڈ فلموں کے چکر میں پڑے تھے، آفریدی نے ایسا بھی کبھی نہیں کیا۔ اسے آئی پی ایل کے پیچھے بھی بھاگتے نہیں دیکھا گیا۔ دنیا جہان کی لیگز وہ ویسے ہی کھیل لیتا ہے۔
یارو یہ ہر بات میں ، چھوٹے چھوٹے معاملات میں انتہائی ردعمل دینے سے گریز کیا کرو ، ایک نارمل ، معقول قوم کی طرح بی بہیو کریں۔ جس طرح انفرادی زندگی میں ہر بات پر ہائپر ، آگ بگولا ہوجانے والے کے بارے میں تاثر نہیں بنتا ، اسی طرح قومی سطح پر بھی ایسے ردعمل، ایسے رویے پسند نہیں کئے جاتے۔ ہر بات میں غداری کے فتوے اور ٹیگ چسپاں نہیں کرنے چاہئیں ۔
اس وقت پاکستانی ٹیم ایک بڑا ٹورنامنٹ کھیلنے بیرون ملک ہے ، اسے قومی سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ شاہد آفریدی سمیت پوری ٹیم کو سپورٹ کریں۔ ان کا مورال ہائی کریں، ڈائون نہیں۔