جاڑوں کی ایک ٹھٹھرتی رات ایک بادشاہ اپنے خیمے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ خیمے میں شمعیں روشن تھیں اور آتشدان میں کوئلے دہک رہے تھے۔ ایک تو خیمے کا ماحول گرم تھا دوسرا انگور کی بیٹی نے اندر کا موسم بھی دو آتشہ کردیا۔ بادشاہ نے ابھی صرف دو جام ہی پئے تھے کہ ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ ” اس سال موسم خلاف معمول ہے ” وہ خود سے گویا ہوا۔ ” ان دنوں سردی ہونی چاہیئے تھی مگر سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ ”
بسنت کے شوقینوں کو کراچی میں حالیہ بسنت بہار کا موسم بھی "خلاف معمول” لگ رہا ہے۔ پورے ملک خاص کر لاہور میں بسنت تو نام ہی پتنگوں کے اڑنے اور پھر کٹ کر گرنے کا ہے تبھی تو "بو کا ٹا” کی آوازیں مزہ دیتی ہیں مگر سیانے کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کی بسنت میں ” پتنگ” اڑتی تو تھی مگر "گرتی” کبھی نہیں تھی۔
یہ کوئی لگ بھگ بتیس برس پرانی بات ہے 1984کے "موسم بہار” میں کراچی کے آسمان پر ایک نئی سیاسی جماعت نمودار ہوئی۔ ” پتنگ ” کا انتخابی نشان رکھنے والی اس جماعت نے اڑان بھری اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی مقبول اور منظم ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ پاکستان کی متعدد طلبا تنظیموں نے سیاسی جماعتوں کے بطن سے جنم لیا ہے مگر یہ وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جو طلبا کی ایک تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اے پی ایم اسی او کا آغاز 11 جون 1978 کو جامعہ کراچی سے ہوا تھا۔
9 فروری 1984 کو مارشل لاء کے ایک آرڈی ننس کے تحت ملک بھر میں طلباء کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ۔ تمام طلبا ء تنظیموں کو "خلاف قانون” قراردے دیا گیا اور ان کے بنک اکاونٹ منجمند کر کے دفاتر کو سربمہر کردیا گیا۔طلبا کی سیاسی سرگرمیوں اور طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہوئی اور اے پی ایم ایس او کے چیئرمین الطاف حسین، وائس چیئرمین عظیم احمد طارق اور دیگر بانی اراکین اپنی تعلیم مکمل کرچکے تو انہوں نے مہاجروں کے مسائل کے حل اور انہیں متحد اور منظم رکھنے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس سیاسی جماعت کا نام مہاجر قومی مومنٹ رکھا گیا اور اس کا قیام 18 مارچ 1984 کو عمل میں آیا۔
مہاجر قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو اس تنظیم کا ” قائد تحریک ” قرار دیا گیا ۔ مہاجر قومی موومنٹ نے اگلے چند برسوں میں سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں تلاطم پیدا کردیا۔ 8اگست 1986 کو مہاجر قومی موومنٹ نے کراچی میں اپنی قوت اور تنظیم کا پہلا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس دن مہاجر قومی موومنٹ نے نشتر پارک میں ایک عظیم الشان جسلہ منعقد کیا ۔ اس جلسے کی تیاری کئی دن سے جاری تھی اور شہر بھر میں جابجا استبقالیہ کیمپ لگے ہو ئے تھے۔ جلسہ کے دن محسوس ہوتا تھا جیسے شہر کا ہر راستہ نشتر پارک کی طرف جا رہا ہو۔ جلسہ گاہ میں حاظرین بہت بڑی تعداد میں جع تھے جن کے نظم و ظبط کا یہ عالم تھا کہ ہلکی بارش کے باوجود جلسہ منظم طور پر جاری رہا۔
مہاجر قومی موومنٹ کے اس جلسہ کی کامیابی نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ الطاف بھائی نے جانے کیا سوچ کر برسوں پہلے ایم کیو ایم کے انتخابی نشان کے طور پر ” پتنگ ” کو منتخب کیا تھا۔ پتنگ جسے پنجاب اور پنجابی میں ” گڈی ” کہتے ہیں، نے کراچی میں گزشتہ 30 برسوں سے ایم کیو ایم کی گڈی "چڑھا” رکھی ہے۔ ایم کیوایم کی مخالف سیاسی جماعتوں۔۔۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کئی طرح کی ” ڈور ” استعمال کرکے ایم کیو ایم کی پتنگ ” کاٹنے” کی کوشش کی مگر ان کے کان ” بو کاٹا ” کی آوز سننے کو ترس گئے۔ یہاں تک کہ 90 کی دہائی میں ” حقیقی ” کا "مانجا” لگا کر نئی ڈور” سوتنے ” کی کوشش کی گئی مگر یہ کوشش بھی رائیگاں گئی اور ایم کیو ایم کی ” چر خڑی” الطاف بھائی کے ہاتھ میں ہی رہی۔
ہر سال موسم بہار کی آمد پر مارچ کے مہینے میں ایم کیوایم کی جانب سے عزیز آباد کے جناح گراونڈ میں ” بسنت میلے” کا اہتمام کیا جا تا رہاہے۔ اس بسنت میلے میں ایم کیو ایم کی ” پتنگیں ” وہ اڑان بھرتی تھیں کی دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے تھے مگر اب کے برس ” موسم بہار ” میں ایم کیو ایم کی پتنگیں اڑان بھرنے کی بجائے ایک ایک کرکے ” کٹ ” کر گرنے لگی ہیں اور اس کے مخالفین ” بو کاٹا ” کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس بار یہ” کمال ” ایم کیوایم کے سابق رہنما مصطفی کمال کا ہے اور ان کا یہ ” کمال ” آج کل ” زوروں ” پر ہے ۔ مگر مصطفی کمال کے مخالفین کا ” الزام” ہے کہ ایم کیو ایم کی پتنگیں کاٹنے میں مصطفی کمال سے زیادہ کمال ” انتظامیہ ” کا ہے جس نے پنجاب بھر میں تو بسنت پر پابندی لگا رکھی ہے مگر کراچی میں پتنگ کاٹنے کی پوری "اجازت” دے رکھی ہے جبھی تو مصطفی کمال کے گھر آئے روز ایم کیو ایم کی کوئی نہ کوئی پتنگ” کٹ” کر گرتی رہتی ہے۔
بتیس برس قبل 1984 میں الطاف حسین نے اپنا سفر مارچ کے مہینے میں شروع کی تھا مگر پہلا سیاسی جلسہ 5 ماہ بعد نشتر پارک میں منعقد کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے 1988 کے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں انٹری دی تھی۔ بتیس برس 2016 میں مصطفی کمال نے الطاف حسین سے بغاوت کا سفر بھی مارچ ہی کے مہینے میں شروع کیا ہے۔ جلسہ تو انہوں نے 23 مارچ کو کرنے کا اعلان کیا ہے مگر بقول ان کے،،، نظر ان کی بھی ضمنی نتخابات کے ٹی ٹوینٹی میچ پر نہیں بلکہ وہ 2018 میں کراچی کی سیاست کا "ٹیسٹ میچ” کھیلنا چاہتے ہیں۔ الطاف بھائی کی ایم کیو ایم نے بہار کے موسم میں جنم لیا تھا مگر گزرے تیس برسوں میں کراچی کے آسمان نے بہار کم اور خزاں زیادہ دیکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار ہی کے موسم میں، مصطفی کمال کے ہاتھوں، کراچی سے جنم لینے والی ایک نئی سیاسی جماعت کراچی کا ” معمول ” کا موسم بدل پاتی ہے یا نہیں؟؟؟
موسم سے یاد آیا! بادشاہ کی بات خادم نے سن لی تھی جو خیمے کے باہر ٹھنڈ میں کھڑا تھا۔ خادم خیمے کے اندر آیا اور دو زانوہوکر بولا تھا۔ "جناب! باہر جہاں یہ خادم کھڑا ہے ، وہاں موسم بالکل معمول کے مطابق ہے۔ ”