لو جی کمال کرتے ہو پانڈے جی ،اتنا ٹیلینٹ اور مہارت کہاں چھپا کے رکھی تھی ؟
او بھائی آفریدی یہ ایک دم کیا ہو گیا تمہیں ،ذرا سنبھل کے نظر لگ جائے گی !
کیا یہ پاکستان کی ٹیم ہے ؟؟؟؟ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ وہ سب جملے ہیں جو پاکستان کی بنگلہ دیش کے خلاف دھواں دار کامیابی کے بعد سننے کو مل رہے ہیں۔
ان جملوں کے پیچھے کتنی خوشی اور امیدیں پنہاں ہیں شاید اس کا اندازہ لگا پانا مشکل ہے کیونکہ احساس کیسے بھی حسین الفاظ کا لبادہ اوڑھ لے اس کی حقیقت پھر بھی نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے۔
یہ تو وہی پاکستانی ٹیم جس کا جانا ہی شکوک و شبہات کا شکار ہوا جا رہا تھا ۔
اچھا جانے سے یاد آیا کہ جب پاکستانی ٹیم کے جانے یا نا جانے پر پورے ملکی میڈیا پر بحث چل رہی تھی اور ہمارے ارباب اختیار آپس میں سر جوڑ کے بیٹھے ہوئے تھے،
اسی دوران ایشیاء کپ کی بدترین کار کردگی سے نالاں شائقین دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہے تھے کہ کاش پاکستانی ٹیم بھارت نہ جائے ۔
ان تمام تر مناجات اور دعاؤں کا حاصل یہ تھا کہ جس طرح کے ٹیم کی کارکردگی جا رہی تھی ٹیم کا نا جانا ہی بہتر ہے۔چلو اور کچھ نہ سہی کم از کم عزت تو بچے گی ۔
مگرجس طرح سے پاکستان نے پہلے وارم اپ میچ میں سری لنکن ٹیم اور پھر بنگلہ دیش کو چاروں شانے چت کیا ہے ،پاکستانی شائقین کی امیدیں پھر سے جوان ہو گئی ہیں ۔کیویز کے مقابل بھارتی سورماؤں کی بد تر ین شکست نے اس جوان ہوتی ہوئی امید کو ایک منفرد اٹھان بھی دے دی ہے ۔
اب مستقبل قریب میں شاہین کس حد تک شائقین کی امیدوں کو ہرا رکھتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔مگردعا تو یہی ہے کہ امید تا دم دیر قائم رہے ۔پاکستانی ٹیم اگر یونہی کھیلتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ ٹیم 1992اور2009 کی طرح ایک مرتبہ پھر شائقین کرکٹ کو حیران کر دے۔
خیرورلڈ کپ کو کو ن جیتے گا اور کون نہیں اس پر پیشوگوئی کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ہنوز دلی دور است کہہ کر معاملے کو ٹال دیں ۔لیکن اگر گزشتہ عالمی مقابلوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کا واقعی قسمت کا دھنی نکلتا رہا ہے ۔ابھی تک ٹوئنٹی توئنٹی فارمیٹ کے پانچ عالمی مقابلے سج چکے ہیں۔
پاکستانی عالمی میلوں میں کوئی 30مقابلوں میں قسمت آزما چکا ہے جس میں سے 18مقابلوں میں شاہینوں نے اونچی اڑان بھری اور 11میں مخالف ٹیم نے شاہینوں کے پر کاٹ دئیے۔پانچ عالمی میلوں میں 2010،2012 کے سیمی فائنلز تک رسائی ۔2007،2009کے فائنلز تک رسائی حاصل کی اور 2009میں جس طرح لارڈز کے تاریخی میدان عالمی کپ کا میلہ جیتا اسے بھلا کون فراموش کر سکے گا۔
گو کہ 2014کے عالمی مقابلے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی مگر اسے ہم یہ کہہ کر بھی نظر انداز کر سکتے ہیں کہ چلو جی ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتا ہے ۔
مگر اس وقت ایک بار پھر کرکٹ شائقین کی نظر شاہینوں پر جمی ہوئی ہے۔مگر ایک بار پھر شائقین کی نظر ورلڈ کپ سے پہلے ورلڈ کپ یعنی پاکستان بمقابلہ بھارت پر ہے۔دنیائے کرکٹ کا یہ بڑا مقابلہ 19مارچ کو کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں سجے گا۔امید یہی ہے کہ نتیجہ جو بھی ہو امید ہے کہ کرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بولے گا
۔ابھی تک تو روایت یہی رہی ہے کہ پاکستان عالمی کپ کے مقابلوں میں ایک بھی بار ہندوستان کو دھول نہیں چٹا سکا اور یہی حال ٹی ٹوئنٹی کے عالمی مقابلوں کا رہا۔ابھی تک پاکستان 3بار ہندوستان کے مدمقابل آ چکا ہے مگر مجھے یہ تاتے ہوئے ذرا بھی شرمندگی نہیں کہ ہم تینوں بار شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔2007کے عالمی کپ کے فائنل میں پاکستان کی شکست تو آج تلک خون رلاتی ہے۔مگر شرمندہ نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اس بار ہماری امیدیں خاصی جوان ہیں اور دعا بھی یہی ہے کہ خدا کرے کہ اس مرتبہ ہم تاریخ رقم کر دیں۔19مارچ 2016کو ہونے والا یہ مقابلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس مرتبہ ہندو انتہا پسند کافی شدت سے اس مقابلے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں ۔
پہلے یہ مقابلہ دھرم شالہ میں شیڈول تھا مگر جب وہاں کی حکومت ہندو انتہا پسندوں کی ہم زبان نظر آئی تو اس مقابلے کو کلکتہ ایڈن گارڈنز منتقل کر دیا گیا جہاں پاکستان نے شاندار آغاز کرتے ہوئے بنگالی ٹائیگرز کو شکست دے کہ تمام حریفوں کو واضح پیغام دے دیا ہے ۔مگر 19مارچ کو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گایہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ ہندوستان ایک بار پھر” موقعہ موقعہ” گا کر پاکستانیوں کو چڑائیں گے اورہم "ہمیں تم سے پیار ہے” گا کر خود کو تسلی دیں گے یا نئی تاریخ رقم ہو گی اس کے لیے دیکھتے رہیے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ 2016اور مجھے دیجے اجازت اللہ نگہبان۔
ہاں مگر یاد رکھیے انشاء اللہ اس بار ملے گا موقع موقع اور پٹاخے بھی پھوڑیں گے۔