گزشتہ سال اکتوبر میں زلزلے سے متاثرہ چترال کے پہاڑی گاؤں چرن اویر کی داستان دلگیر کیمرے میں محفوظ کرنے کے بعد واپس اپنے ہوٹل کیلئے روانہ ہوئے تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ پر اسرا سناٹے ، فلک بوس چٹیل پہاڑوں کے سحر زدہ بدن اور دریائے چترال کی شوریدہ لہروں کے دوش پہ سفر کرتے کوراغ گاؤں پہنچے جہاں ایک نشیبی موڑ پر اپنی ڈی ایس این جی (سٹیلائٹ) وین کو ایک پہاڑی نالے سے سینہ زوری کرتے پایا۔ وین برفیلے پانی میں پار جانے کیلئے جتنا زور لگاتی، اتنی ہی تیزی سے ریت اور بجری میں دھنستی چلی جاتی ۔ مجبوراً ہم بھی اترے ، یخ پانی میں مختلف داؤ پیچ آزمائے، لیکن بے سود۔
وین دروازوں تک پانی میں ڈوبی تو میری تشویش بڑھ گئی،میں ایک ساتھی کو لیکر نالے سے ملحقہ چند گھروں میں سے ایک کے دروازے پر گیا، دستک دی اور باہر آنے والے کو اپنی ببتا سنائی۔ کچھ دیر میں چار لوگ گینتی بیلچہ لئے نالے میں آئے ، کسی نےپانی کا رخ موڑا ، تو کسی نے ٹائروں کے گرد جمع ریت ، بجری ہٹائی۔ وین کو ایک بار پھر بھر پور ریس اور پرزور دھکا دیا تو چاروں پہیے پوری قوت سے دوبارہ ریت اور سنگریزوں میں دھنس گئے۔ ایک دو نو جوان گھروں کو پلٹے اور لکڑی کا ایک شہتیر لے آئے ، جسے پچھلے فریم کے نیچے گھسا کر وین کو اوپراٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن بے نتیجہ۔ ٹھنڈی چاندنی میں نہاتے پر اسرار نالے میں اب رات کے تین بج رہے تھےاور سریلی جلترنگ بجاتا پانی پھر سے وین کے دروازوں کو چھو رہا تھا۔
کسی نے ٹریکٹر کا مشورہ دیا تو معلوم ہوا کہ قریب ہی ایک شخص کے پاس ٹریکٹر ہے، چنانچہ دو مقامی نوجوان ہماری جیپ میں ٹریکٹر والے کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر جیپ سڑک کنارے قدرے ویران پٹرول پمپ پہ کھڑی کرکے ہم لوگ کھیتوں کے شجر دار کناروں پہ چلتے ہوئےگھروں کے ایک جھرمٹ میں پہنچے ۔ ایک گھر کے باہر رکے تو مقامی نوجوان نے دروازے پہ دستک دی،جواب نہ آیا تو لڑکا دیوار پھلانگ کر اندر کود گیا، میں بھاگ کر ایک اوٹ میں ہو گیا اور اس ڈر سے کہ ابھی گولی چلے گی، ہنگامہ ہو گا، جیپ تک بھاگنے کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔ چند لمحوں بعد سب اچھا ہے دیکھ کردوبارہ دروازے کے پاس گیا، ایک چوڑی درز سے اندر جھانکا تو نوجوان برآمدے میں چار پائی پہ لیٹے شخص سے باتیں کر رہا تھا۔ نوجوان دروازے سے واپس آیا اور یہ کہتے ہوئے کہ ٹریکٹر والے کا گھر یہ ہے، دوسرے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا، اس بار اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور ہم سب اندر چلے گئے۔
نوجوان نے اس مرتبہ بھی برآمدے میں چار پائی پر نیند کے بحر بے کراں میں غرق ایک بیس سالہ نوجوان کو جگایا، جو ٹریکٹر والے حاجی علی نظر کا بیٹا تھا۔ بچے نے ہماری افتادسنی تو اپنے والد کو جگانے گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک درخشاں سرخ چہرے، سفید داڑھی ، درمیانے قد ، چوڑے کندھوں اور مضبوط جسم والا حاجی علی نظر جاگرز اور جیکٹ پہنے دروازے پہ تھا ۔ ‘چلیں سر ، لٹس گو’، حاجی نظر ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ ستر سالہ حاجی نظر ہمیں پیچھے چھوڑتا، کھیتوں کو عبور کرتا پٹرول پمپ کے عقب میں پہنچ گیا اور ہمارے آنے تک گیراج سے ٹریکٹر اور آہنی رسہ لیکر باہر آ گیا۔
نالے میں پہنچ کر حاجی نے ٹریکڑ وین کے آگے روکا، پانی میں بھاگ کر لوہے کا رسہ وین سے باندھا، واپس ٹریکٹر چلایا لیکن رسہ اپنی جگہ چھوڑ گیا، بوڑھا جاجی دوبارہ بھاگا، رسہ باندھاڈرائیونگ سیٹ پہ آیا، ٹریکٹر چلایا، وین ریت اور بجری کی گرفت سے نکلتی، برفیلے پانی کو پیچھے چھوڑتی ٹریکٹر کے پیچھے پکی سڑک پہ پہنچ گئی۔ قمراپنا الوداعی مکھڑ ا دکھا رہا تھا کہ ہم پہاڑی نالے کوالوداع کہہ کر چترال شہر کو چل دیئے۔جاتے جاتے میں نے مقامی نوجوان سے پوچھا کہ آدھی رات کو دوسروں کے گھروں میں کودنے پر گولی نہیں ماری جاتی؟ جواب دیا یہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، دوسرے کے گھر وہی کودے گا جو کسی مصیبت میں ہوگا۔ اگر کوئی چوری کیلئے دیوار پھلانگے تو؟ جواب دیا یہاں چوریاں نہیں ہوتی۔حاجی علی نظر کا پھرتیوں سے لبریز اخلاص اور کورغ کے باسیوں کی عظیم روایات صفحہ دل پہ ہمیشہ سنہری حروف میں کندہ رہیں گی۔