جاناجنرل(ر) پرویز مشرف کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل (ر)پرویز مشرف آخر ملک سے باہر چلے گئے، پچھلے کئی ماہ سے چلنے والا ڈرامہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ اخباری تجزیوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یہ ایشو اب کئی دنوں تک زیر بحث رہے گا،اگر چہ عملاً اب یہ سانپ پیٹنے والی بات ہوگی ۔

مئی 2013ءکے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نے مرکز میں حکومت بنائی تو کچھ ہی عرصہ کے بعد حکومتی کیمپ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف انتقامی جذبات انگڑائی لینے لگے۔ہر پارٹی کے اندر کچھ زیادہ سخت گیر، جارحانہ مزاج، جوشیلے لوگ ہوتے ہیں جنہیں عقاب (Hawk) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ مصلحت اندیش، محتاط اور جارحانہ پالیسی سے گریز کرنے والے موجود ہوتے ہیں، انہیں پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں فاختہ (Dove )کہہ دیا جاتا ہے ۔یہ اصطلاحات سفارت کاری کے حوالے سے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے جب خورشید قصوری صاحب کو وزیرخارجہ بنایاتو یہ منصب سونپنے سے پہلے ان سے ملاقات کی۔ بقول قصوری صاحب، جنرل مشرف نے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ سوچ کے حساب سے عقاب ہیں یا فاختہ؟ خورشید قصوری کا جواب تھا، عقاب ہوں نہ فاختہ (Neither a Hawk Nor a Dove)۔اسی نام سے قصوری صاحب نے اپنی خودنوشت بھی شائع کی۔

بات پرویز مشرف سے سیاسی انتقام کی ہو رہی تھی، مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی سیاست کے نبض شناسوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف مسلم لیگ میں سخت گیر سوچ رکھنے والے گروپ میں بڑے میاں صاحب بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ وہ جو تصویر دل کے چوکھٹے میں اتار لیں، اسے جلدبدلتے نہیں ۔ جسے پسند کرتے ہیں، ا س کے لئے نرم گوشہ برسوں بلکہ عشروں تک رکھتے ہیں۔ ناپسند بھی اسی شدت اور قوت سے کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مئی کے انتخابات کے بعد حکومت بنی تو وزیراعظم ہاﺅس دو حوالوں سے خاصا پرجوش اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھا۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ اب ہم اپنی سوچ اور فکر کے مطابق پاک بھارت دوستی کا عمل تیز کریں گے ، ایم ایف این سٹیٹس دینے کے علاوہ بھی کئی امور پربرق رفتار پیش رفت کی جائے گی۔ایک سینئر صحافی کے بقول ، ایک اہم حکومتی وزیر سے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلق بڑھاتے ہوئے زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھے جائیں ، ورنہ ”مسائل“ پیدا ہوجائیں گے۔ وزیر موصوف نے اس صائب مشورے پر انہیں گھورااور تحکمانہ انداز میں انگلی کھڑی کر کے کہا،” اب جو ہم فیصلہ کریں گے ،وہی ہوگا۔“ بعد میں جو ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔جس تیزی سے آگے بڑھے تھے، اتنی ہی تیزی مگر پشیمانی کے پسینے کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔سب کو سمجھ آگئی کہ پاک بھارت تعلقات ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں، یہ ٹیسٹ میچ ہے ، وہ بھی عام دورانیے سے زیادہ طویل ۔ ویسے بھی جب تک نئی دہلی میں پاکستان سے خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی امنگ پیدا نہیں ہوگی، اسلام آباد میں چہرہ کوئی بھی ہو، یک طرفہ بنیادوں پر وہ کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا معاملہ بھی ویسی نوعیت کا ثابت ہوا۔ حکومتی کیمپ کو ان کے بعض بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس کھیل میں نہ شامل ہوں، اس سے فائدہ کم ہے، نقصان کا خدشہ زیادہ۔ مشورہ دو دلائل کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔اول یہ کہ سویلین حکومت کو ابتدا ہی میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں الجھنا چاہیے، اس سے باہمی تعلقات کشیدہ ہوں گے اور فائدہ سیاسی مخالفین اٹھائیں گے ۔اس کے جواب میںحکومتی ”عقابوں“ کا خیال تھا کہ ہم شروع میں زیادہ طاقتور ہوں گے کہ اتنا جلدی کوئی اسٹیبلشمنٹ عوامی مینڈیٹ لینے والی حکومت کو نکال نہیں سکتی، اس لئے جو کرنا ہے، شروع میں کرگزرو۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑا، قانونی طور پر وہ یقیناً مجرم ہیں ،لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں، وہ عسکری حلقوں میں مقبول ہیں اور اہم حلقوں میں یہ مستحکم تاثر ہے کہ مشرف نے شدید امریکی دباﺅ کے باوجود پاکستانی مفادات(ایٹمی اثاثوں ، طالبان کے ساٹھ سٹریٹجک تعلقات وغیرہ) کا بڑی حد تک تحفظ کیا ہے۔حکومتی جماعت محض اپنے انتقامی جذبات کی تسکین کے لئے عدالتوں میں کھینچنا اور ذلیل کرنا چاہتی ہے۔دوسری طرف مشرف مخالف حکومتی حلقے کا یہ خیال تھا کہ پرویز مشرف نے ملک وقوم کو رسوا کیا، جمہوریت پر شب خون مارا ، عدلیہ کی آزادی سلب کی۔اس کے ساتھ ساتھ جنرل پرویز مشرف نے تین چار حوالوں سے بہت بدنامی کمائی۔نائن الیون کے بعدمقبوضہ کشمیر میں جہادی تنظیموں کو سپورٹ کے حوالے سے یوٹرن، پھر جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اورافغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ سے تعاون نے روایتی مذہبی حلقوں کو مشرف مخالف بنا دیا۔مذہبی جماعتیں، دینی مدارس کے طلبہ اورمسجد ومنبر سے تعلق رکھنے والے حلقے اس پر بڑے برہم اور آزردہ ہوئے ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر ہونے والے آپریشن نے ان جذبات کو دس سے ضرب دے دی۔مذہبی حلقوں کے غیض وغضب کی انتہا نہ رہی ۔نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے ایک اور انداز سے آگ بھڑکائی، بلوچ ، پشتون قوم پرستوں کے علاوہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے والے جمہوری حلقے بھی خفا ہوئے۔ حکومتی کیمپ کا خیال تھا کہ یہ تمام فیکٹر اکٹھے ہو کر پرویز مشرف کو رسوا کرنے اور عدالت کے ذریعے اسے سزادلوانے کے لئے کافی ہوں گے۔ یہ خیال بھی یقیناً کہیں نہ کہیں گردش کر رہا ہوگا کہ اگر ایک بارکسی کو اس آئینی شق کے تحت سزامل گئی تو پھر مستقبل میں ایسا ایڈونچر کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں آئے گا۔

پچھلے سال ڈیڑھ کے دوران اس حوالے سے جو کچھ ہوتا رہا، وہ سب کے سامنے ہے۔آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے معاملے میں نہ الجھنے کا مشورہ دینے والے درست ثابت ہوئے۔ حکومت یہ کیس شروع کر کے پھنس گئی ۔ ان کے لئے نہ نگلے جانے، نہ اگلے جانے والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ پیچھے ہٹنا بھی ندامت اور شرمساری کا باعث تھا، آگے برق رفتار پیش رفت بھی ممکن نہیں تھی۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود مشرف کو جیل بھیجنے میں بھی حکومت ناکام رہی۔ گھر میں نظربندی پر اکتفا کرنا پڑا یا پھر ہسپتال کے لگژری کمرے میں رکھنا پڑا۔ اس صورتحال میں حکومت کے لئے بہترین آپشن یہی تھی کہ کسی طرح باہر علاج کرانے کے نام پر سہی، پرویز مشرف کو باہر بھیج دیا جائے ،اس سے ہر فریق کا کچھ نہ کچھ بھرم رہ جائے گا۔ پرویز مشرف محفوظ ہو جائیں گے، ان کے بہی خواہوں کو اس سے طمانیت کا احساس ہوگا۔ حکومت کو یہ تسلی رہے گی کہ کم از کم انہوں نے کیس تو چلایا۔وہ کہہ سکے گی کہ کبھی کسی نے اتنا بھی نہیں کیا تھا، زرداری نے تو گارڈ آف آنر دیا ، ہم نے توکیس چلایا۔ اگر عدالت نے غیر موجودگی میں سزا سنا دی تو اس سزا پر کچھ شور مچاکر، بھنگڑے ڈال کر خوشی منا لی جائے گی، ادھر پرویز مشرف کو یہ اطمینان رہے گا کہ میں نے کیس فیس کیا تھا ، پیچھے نہیں ہٹا اور بیماری کی بنیاد پر مجبوراً باہر آیا ۔ وہ دوبارہ واپس آنے کی بڑھک بھی مار سکتے ہیں۔ کوئی یقین کرے یا نہ، اس سے کمانڈو کو فرق نہیں پڑتا۔

اب ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ چودھری نثار نے پریس کانفرنس میں وہی باتیں کر کے حکومت کا دفاع کرنے کی سعی کی ہے۔ پرویز مشرف نے علاج کے بعد واپس آنے کا مژدہ سنایا ہے ۔ تیسرے فریق کی رائے تو کھل کر سامنے نہیں آ یا کرتی ، اس کے بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں، وہ لگائے جار ہے ہیں۔ یہ تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ موجودہ عسکری قیادت کا رویہ مثبت رہا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو سابق آرمی چیف کو قدرے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل کیانی کے بھائیوںکے حوالے سے تحقیقات چل رہی ہیں، جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنے اندازوں کے برعکس خاصے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔پرویز مشرف نے کوشش کی کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لپیٹ میں لیا جائے تاکہ اتنا غبار اڑے کہ کوئی کچھ نہ کر پائے۔ عدالت نے یہ کوشش ناکام کر دی۔ جسٹس ڈوگر اور دیگر کو شریک نہ کرنے سے اب کیس پرویز مشرف ہی کی جانب بڑھ اور دائرہ تنگ ہو رہا تھا۔ باہر جانے کے سوا ان کے پاس آپشن کوئی نہیں بچی تھی۔ سیاسی قوتیں چاہیں تو اسے اپنی فتح قرار دے سکتی ہیں۔ اس وقت اہم ترین بات یہ ہے کہ کیا کوئی ڈیل ہوئی ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے؟باخبرصحافیوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں نیب کی پنجاب میں کارکردگی اس سوال کا جواب دے گی۔ اسی سے اندازہ ہوگا کہ ڈیل ہوئی یا نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے