ہم توچاہتے تھے لیکن آمریت نےنہیں چھوڑا

ویسے تو سرکاری افسر کے بیٹے کا معمولی سے سکول میں پڑھنا ایک اچھنبے کی بات ہے مگر شہر پشاور کے مضافات میں واقع جس سکول سے میں نے تعلیم حاصل کی وہاں ایک سرکاری محکمہ کے افسر کا بیٹا بھی میرا ہم جماعت تھا۔

اقبال نامی ہم جماعت انتہائی نالائق تھا اور امتحانی مشقوں کے دوران اسے اپنے دوستوں سے مدد لینے کی عادت تھی جبکہ خود فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے اقبال نے محنت شروع کر دی لیکن اپنے ساتھیوں کی باتوں میں آکر مختلف جگہوں پر مار کھا جاتا تھا جس سے تنگ آکر اساتذہ کی ناجائز شکایات کے بعد پرنسپل نے اسے سکول سے ایک سال کے لیے بے دخل کر دیا۔

سال گزر جانے جب اس نے دوبارہ سکول میں حاضری دینا شروع کی تو اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس نے تکیہ کلام بنا لیا کہ ” میں تو محنت کرنے لگا تھا پرنسپل نے چھوڑا نہیں” ۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ہانپتے کانپتے جیسے تیسے کر کے اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی اور تعلقات کی بناءپر سکول کے مالک سے لین دین کرنے کے بعد اپنے ہی سکول کا پرنسپل بن گیا تاہم اس نے اپنی ایما پر ماضی میں شکایات کرنے والے اساتذہ کو آئندہ کسی طالبعلم سے زیادتی نہ کرنے کی غرض سے کڑی نگرانی کی بجائے انہیں چھوڑ دیا۔

ایسا ہی کچھ حال ہمارے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا ہے جن کا تیسرا دور ایک سال بعد مکمل ہو جائے گا ۔ میاں برادران اور ان کی پارٹی سے اگر پوچھا جائے کہ آپ نے اپنے تین ادوار میں ملک کے لیے کیا کارنامہ سرانجام دیا تو جواب میں موٹروے سے شروع ہوکر قرضوں کے کشکول برائے نام توڑنے اور اب تو میٹرو اور اورنج لائن تک بے شمار منصوبہ جات پر آنکھیں چُندھیا جانے والی روشنی ڈال کر تبصرہ کیا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کے ہی ڈاکٹر محبوب الحق کی جانب سے پیش کردہ انسانی ترقی کی فہرست جسے ترقی یافتہ ممالک” ہیومن ڈیویلمنٹ انڈیکس” کہتے ہیں اور اسکی پیروی کرتے ہیں کے مطابق یہ تمام کام ضلعی حکومتوں کا ہے وفاقی حکومتوں کا کام گورننس اور پالیسی مرتب کرنا ہے۔

میاں صاحبان سے تعلیم ، صحت، معاشرتی انصاف، انفرادی ترقی پر بات کی جائے توان کا منہ بالکل سرکاری افسر کے بیٹے اقبال سا ہو جاتا ہے اور فرمانے لگتے ہیں کہ ” ہم تو محنت کرنے لگے تھے مگر آمریت نے چھوڑا نہیں” ۔

اب تک عام انتخابات میں میاں صاحبان کی کامیابی اسی تکیہ کلام میں مضمر تھی مگر ایک بار پھر کسی دوست کی وجہ سے مار کھا گئے اور جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ ان کے لیے ایسا لقمہ ثابت ہوا جسے وہ نگل نہ سکے اور باہر انڈھیل دیا۔

سنگین غداری مقدمے کے دوران وفاقی حکومت کی بھر پور کوشش رہی کہ پاک فوج کے سابق سپہ سالار کا معاملہ عدالت عظمیٰ دیکھے مگر عدالت عظمیٰ نے آزادانہ نقل و حرکت کی آئینی شک کو مد نظر رکھ کر انہیں اندرون و بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے بندوق اتار کر دوبارہ وفاقی حکومت کے کندھے پر رکھ دی کہ وفاقی حکومت چاہے تو پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کر سکتی ہے۔

حیران کن حد تک شجاعت عظیم معاملے پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ رد کرنے والے وزیر اعظم نے پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے کر جہاں ایک طرف اپنی سیاسی مہم میں اہم کردار ادا کرنے والے تکیہ کلام کا گلا گھونٹ دیا ہے تو دوسری طرف ملنے والے مینڈیٹ کو روندتے ہوئے یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ جمہوریت کی بھڑکیں جتنی ماری جائیں لیکن چلی ہوئی ” بندوق ” بھی سیاسی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

لال مسجد آپریشن کے بعد قائم ہونے والے شہداءفاﺅنڈیشن کے وکیل طارق اسد نے آپریشن سائلنس کے حوالے سے مختلف نوعیت کے کیسوں میں رواں سال کی آٹھ فروری کو اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل دو رکنی بینچ کے سامنے عدالت ہی کے ایک جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انکے بقول جب بندوق والے آجائیں تو عدالتیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں ۔

سابق صدر و فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف پر سنگین غداری مقدمے کے باوجود انہیں باہر جانے کی اجازت دیکر سنگین غلطی کی گئی جس کے نہ صرف ملک کی سیاست اور جمہوری اقدار پر منفی اثرات ہونگے بلکہ ہمیشہ کی طرح سول ملٹری تعلقات میں ملٹری کو اعصابی برتری بھی حاصل رہے گی جو کہ سیاسی شعور رکھنے والی ریاستوں اور قوموں میں حقیقی جمہوریت کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔اگر معاملہ خصوصی عدالت پر چھوڑ دیا جاتا تو 2018 میں موجودہ سربراہ جسٹس مظہر عالم میانخیل کے ریٹائرہو جانے اور عام انتخابات تک میاں محمد نواز شریف اپنی سیاسی ساکھ کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے