کون ہو تم ؟

کوئی دوست بتا رہا تھا کہ ایک ٹرین میں ایک شخص اکڑ کے پوری دو برتھوں پر قبضہ کرکے بیٹھا تھا ۔۔ جو سواری آکے ان سیٹوں پر بیٹھنے کی کوشش کرتا وہ کہتا اوئے بھاگ جاؤ ۔۔ یہاں سے جانتے نہیں میں کون ہوں؟

کوئی بھی ٹکٹ ہونے کے باوجود وہاں جانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا،ایک شخص آیا اسے بھی اس شخص نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا بھاگ جاؤ۔۔ جانتے نہیں میں کون ہوں؟
اس شخص نے بھی اپنا بیگ سیٹ پر رکھا اور غصے سے پوچھا: کون ہے تو؟
جواباً پہلے غنڈہ بن کر سیٹوں پر قبضہ کرنے والا بولا: بھائی جان میں بیمار ہوں۔

ابھی ابھی ہم نے ایسا واقعہ خود دیکھ لیا جب بقول ہمارے چھوٹے بھائی بشیر چوہدری کے ایک جرنیل نازک ۔۔ پہلے خود بدمعاشی کا رعب جمائے سیٹوں پر قبضہ کرکے بیٹھا تھا اب اچانک بیمار ہو گیا۔۔ بیماری بھی اتنی خوف ناک کہ علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔۔ اس لیے استدعا یہ کہ علاج کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے۔

اب بھلا کوئی یہ پوچھے اس جرنیل نازک سے کہ جناب خوف کا تو کوئی علاج اب تک دریافت ہی نہیں ہو پایا ہے۔ آپ کہاں سے علاج کروائیں گے؟

لیکن جو ں ہی ان کی پہلی تصویریں سامنے آئیں ساری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ ایک کمانڈو، خوف سے اپنی کانپتی ہوئی ٹانگوں کا علاج کروانے گیا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی میں گردوں کا درد ہوتے ہم نے پہلی بار ہی دیکھا۔

خیر یہی واقعہ اکڑ دکھانے والا خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال پر بھی فٹ ہو سکتا ہے۔۔ اکڑ دکھاتے تھے کہ جناب آرٹیکل چھ کا نفاذ ہوگا مگر اچانک ایک اور دھرنے سے بچنے کے لیے بیمار ہوگئے، بیماری بھی کون سی۔۔ جس میں اچانک اپنی کہی باتیں بھول جاتے ہیں، جو فلم گجنی میں عامر خان کو ہوئی تھی، شارٹ ٹرم میموری لوس۔۔۔

لیکن جناب مجھے سب سے زیادہ افسوس تو اس بیماری پر ہوا جو ہماری عدالتوں میں موجود عدالتی افسران کو لاحق ہوئی ہے۔۔ ان لوگوں کو ایک بار پھر نظریہ ضرورت کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، افتخار چوہدری صاحب کو اللہ غریق رحمت کرے، ان کے ایک انکار کے بعد سے یہ بیماری بمشکل ختم ہوئی تھی اب پھر سر اٹھانے لگی ہے۔

کوئی بھلا ان بڑے بڑے بدمعاشوں کو پوچھے جناب ۔۔ یہ ساری بدمعاشی صرف غریب عوام کے لیے ہے ؟ ان بڑے بڑے ناموں میں سے کسی کو ہاتھ ڈالتے آپ خود اچانک بیمار کیوں ہو جاتے ہیں؟

اب اپنی اس بھلی سی ماڈل ایان علی کو ہی لے لیجیے۔۔ اس غریب کا نام ای سی ایل سے نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ ایک اور بڑے نام سے جڑی ہے۔ اس بڑے نام کے شخص کے ڈالر لے کر وہ بیرون ملک جانا چاہتی تھی مگر جا نہیں سکی۔۔ منی لانڈرنگ کا الزام۔۔۔ ارے صاحب یہ الزام تو اپنے سمدھی سرکار پر بھی ہے، ان کا تو آج تک کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے وزیر اعظم کے سمدھی ہیں؟

یہ جرم بھی بڑا ہو سکتا ہے لیکن میں ایک اور واقعہ اسی اسلام آباد شہر کے تھانہ کورال کا سناتا ہوں جہاں ایک شادی کی تقریب میں کچھ لوگ شراب پیتے پکڑے گئے ان میں ایسے بھی تھے جو اس وقت بھی پی نہیں رہے تھے مگر ہماری مثالی پولیس کی زد میں آگئے ، ایک غریب شخص گاڑیاں دھوتا ہے وہ بھی اس میں پکڑا گیا ۔۔ آج کئی سال گزر گئے ہیں جب بھی مثالی پولیس کا دل کرتا ہے اسے پکڑ کے لے جاتی ہے، پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے، پیسے نہ ملیں تو اڈیالہ کی سیر ہوتی ہے۔۔ جبکہ یہاں ایوان اقتدار کے بالکل سامنے روزانہ سی ڈی اے کے صفائی کرنے والے کتنی بوتلیں کس دروازے کے سامنے سے اٹھاتے ہیں کوئی نہیں دیکھ پاتا۔۔۔ اور دیکھے بھی کیوں وہ سوال کرلیتے ہیں جانتے نہیں میں کون ہوں؟

اب تک ان کو کوئی بھی ایسا نہیں مل سکا جو پوچھ سکے کون ہو تم؟

قانون کا حال یہ ہے کہ یہاں اربوں، کروڑوں کی کرپشن کرنے والے پلی بارگین کے کالے قانون کے تحت اس کرپشن کی رقم میں سے کچھ حصہ نیب کو دے کر قانونی طریقہ سے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ معاف کیجئے گا میں نے اسے کالا قانون کہا ہے کہیں اس پر توہین کا مرتکب نہ ٹھہرا دیا جاؤں۔۔ میری توبہ ، میری نسلوں کی توبہ۔۔ بھائی آپ لوگ جانتے نہیں یہ نیب والے کتنے ظالم ہیں کہ بڑے بڑے شرفاء بھی ان سے کانپتے ہیں میرے نام کے ساتھ تو شریف بھی نہیں جڑا ہوا۔ ویسے بھی میں اتنا با ہمت نہیں کہ کسی سے پوچھ سکوں اوئے تم جانتے نہیں کون ہوں میں؟

ہو سکتا ہے وہ اکڑ کے پوچھ لے۔۔۔ کون ہے تو؟ اور میں تو بیمار بھی نہیں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے