کئی لوگ سیکولرازم اور سیکولرائزیشن کے تصورات کو خلط ملط کرجاتے ہیں- ایک حد تک باہمی تعلق اور اثرکے باوجود سیکولرازم اور سیکولرائزیشن میں فرق موجود ہے- مختلف تعبیرات اور تشریحات کی بحث میں الجھنے کی بجاۓ حاصل مطالعہ پر اکتفا کرتے ہوۓ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیکولرازم کا تعلق بنیادی طورپرنظام ریاست سے ہے، جبکہ سیکولرائزیشن کا تعلق معاشرہ اورمعاشرتی اداروں سے ہے۔
اول الذکر کے نتیجے میں ریاست اور مذہب کا باہمی تعلق ختم ہوجاتا ہےاورپورا ریاستی نظام مذہبی عقائد و نظریات سےبے نیاز ہوکراجتماعی انسانی فکر کی بنیادپر ترتیب پاتا ہے- مذہب ہر فرد کا انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے- ریاست کے قانون، عدالت، سیاست، معیشت، حکومتی اداروں اور طریقہ کار سے مذہب کا کوئی سروکار باقی نہیں رہتا- اس کے نتیجے میں مذہب پبلک دائرے سے نکل کر صرف پرائودیٹ دائرہ تک محدود ہوجاتا ہے-
اس کے برعکس موخرالذکر کی صورت میں مذہب معاشرتی سطح پر اپنا اثر رسوخ کھودیتا ہے۔ سماجی زندگی کے مختلف اداروں سے لیکرفرد کی زندگی تک آہستہ آہستہ مذہب کی اہمیت اور فعالیت ختم ہو جاتی ہے- جس طرح سیکولرازم میں ریاست مذہب سے بے نیاز ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح سیکولرائزیشن میں سماج اور فرد بھی دھیرے دھیرے مذہب کے جھنجٹ سے جان چھڑا لیتے ہیں- ہر شخص اور گروہ اپنے مفاد کا فیصلہ عقل اور تجربے کی روشنی میں کرتا ہے- یہاں تک کہ اخلاقیات کے لئے بھی کسی مذہب سے راہنمائی کی بجاۓ انسانی عقل و شعورکوکافی سمجھا جانے لگتا ہے۔
سیکولرازم ٹاپ ڈاون عمل ہے جبکہ سیکولرائزیشن باٹم اپ عمل ہے- سیکولرازم کے پیچھے آئین اور قانون کا سہارا حاصل ہوتا ہے جبکہ سیکولرائزیشن کے پیچھےعمومی سماجی شعور کافرما ہوتا ہے- ان تصورات میں سے جس کو بھی پہلے قبول اور رائج کیا جاۓ ایک عرصے کے بعد دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
مثلا” ریاست کے سیکولر ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ مذہب کے بارے میں فرد کی فکر بھی بے نیازی، بیزاری اور بالآخرمکمل بے دخلی پر منتج ہوجاتی ہے- اور افراد کے بڑے پیمانے پر مذہب سے لاتعلقی کے نتیجے میں بھی بالآخر اجتماعی سطح پر ریاست اور مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے-
[pullquote]غور کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب سے جاں خلاصی کے اعتبار سے سیکولرازم اور سیکولرائیزیشن میں بس طریقہ واردات کا فرق ہے۔ دونوں کےہاں اپنے مشترکہ دشمن یعنی مذہب کا منطقی انجام کم وبیش ایک ہی جیسا ہے۔[/pullquote]