ماحول کے سوکھے وجود میں جان پڑنے لگی ہے ۔خشک ٹہنیوں کا وجود پھر سے بھر نے لگا ہے ۔ ان دنوں فضائیں خوشبوں سے مہکنے کو بے تاب ہیں۔ جابجا کھلتی نئی کونپلیں ،سبزہ زار سے سجی زمین ،پیلے پھول اور رنگوں کی پھلواری اس موسم کاسندیہ دیتی ہے جسے لوگ بہار کے نام سے جانتے ہیں ۔ لیکن مجھے اس سے کیا لینا ؟بہار کا جوبن میرے لئے عذاب بن کر ٹوٹتا ہے ۔ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتاہے ۔
رنگ وبو کا یہ عالم میرے سمیت اسلام آباد کے ہر اس شہری کے لئے امتحان ہے جو پولن الرجی کے مرض میں مبتلا ہے ۔اس الرجی کی علامات سب مریضوں میں مختلف ہوتی ہیں ۔میری تو صبح کا آغا ز ہوتے ہی چھینکیں اور گلے میں خراش کی شروعات ہوجاتی ہے ۔دن چڑھتے چڑھتے حالت بری ، ماسک سے کچھ بچاو تو ہو جاتاہے لیکن اگر الرجی کی دوا سیزن شروع ہونے سے پہلے لینا بھول جاوں تو سمجھیے ہر دن نڈھال سے گزرتا ہے ۔
60 کی دہائی میں اسلام آباد کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے ایریل سپرے کے ذریعے جنگلی شہتوت کے بیچ بوئے گئے ۔فصل پولن الرجی کی اگی گی اس کا شاید کسی کو علم نہ تھا ۔اور اب حالت یہ ہے کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں جنگلی شہتوت کے درخت نہ ہوں ۔
شہر کی بیش تر شاہرایں اور رہائیشی سیکٹرز میں پولن پھیل چکے ہیں ۔تاہم سیکٹر ایچ ایٹ ، ای ایٹ ، ایف ایٹ ،جی سیون اور آئی ٹین کی فضاووں میں پولن کی مقدار سب سے زیادہ ہے ۔
شہر میں کئی ایک ترقیاتی منصوبے بنے ، سیونتھ ،اور نائتھ ایونیو ز، اہم فلائے اورز اور میٹرو بس منصوبے جیسی کامیاب مثالیں تو ضرور موجود ہیں لیکن اس دوران درختوں کا بے رحمانہ قتل بھی ہوا ۔ محکمہ موسمیات کے حکام کہتے ہیں کہ درختوں کی کٹائی ہوئی لیکن جنگلی شہتوت کی بہتات کم نہ ہوسکی اور پولن الرجی کی تعداد پر بھی کوئی خاص فرق نہ پڑا ۔
اسلام آباد میں ایک تبدیلی ضرور آئی ۔اور وہ ہے موسمیاتی تبدیلی ۔گلوبل وارمنگ کا اثر پاکستان پر بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔سردیوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئیں اور گزشتہ سالوں کے مقابلے میں سردی اپنی شدت بھول گئی ۔غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں سے مارگلہ کی پہاڑیوں پر اس سال برف باری نے ایک خوبصورت سماں باندھ دیا ۔حکام نے یہ پیش گوئی بھی کر رکھی ہے کہ اس سال گرمی اپنا خوب زور دیکھائے گی ۔اس کے اثرات تو ابھی سے دیکھے جاسکتے ہیں کیونکہ دھوپ کی تپش میں جو سختی ان دنو ں ہے وہ بھی غیر معمولی قرار دی جارہی ہے ۔
بہار ان دنوں اپنے جوبن پر ہے ۔لیکن اچھی خبر ہے بہار کی بارشیں ، جو پولن کو زیادہ پنپنے نہیں دی رہیں ۔ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ برس 21 سے 29 مارچ کے درمیان اسلام آباد کی فضائیں میں پولن اپنے عروج پر تھی ۔پولن کی مقدار35 ہزار فی کیوبک میٹر تک جا پہنچی تھی ۔ایک بار پھر ہمیں بارش کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ 2010 میں پولن کی تعداد 52 ہزار فی کیوبک میٹر ہو گئی تھی ۔
محکمہ موسمیات نے مار چ کے آخری دنوں میں اسلام آباد سمیت بالائی علاقوں میں دو بار بادل برسنے کی نوید سنا رکھی ہے ۔بارش سے درجہ حرارت کم ہو گا تو پولن بتدریج کم ہو تی جائے گی ۔
اسلام آباد کے شہری تو اس وقت کے منتظر ہیں جب جنگلی شہتو ت مکمل طور پر تلف کر دئیے جائیں اور پولن الرجی کے مریضوں کی زندگی میں بھی بہار لوڑ آئے ۔