یہ جامعۃ الحسنین فیصل آباد کا سالانہ اجتماع تھا جس میں مدرسے سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ سفید لباس اور عماموں میں ملبوس باوقار اندار میں ایک ترتیب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے .
مولانا طارق جمیل منبر پر بیٹھے .انہوں نے جو کچھ کہا ،اس کا کچھ حصہ میں یہاں رقم کر رہا ہوں تاہم یہ محض الفاظ ہیں ، ان کا سوز اور درد منتقل نہیں کر سکوں گا لیکن مجھے امید ہے کہ ان لفظوں کو عمل کی صورت اآپ دے سکتے ہیں .
” اپنی بیویوں اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ،گھر سے باہر کا اخلاق ہی اخلاق نہیں ہے،اصل اخلاق کا پتہ گھر میں چلتا ہے اسی لیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ”خیرکم خیرکم لاھلہ واناخیرکم لاھلی” تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی اور گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔
سخاوت بھی سیکھو ،اپنی بیویوں سے حساب نہ لو،بہت سے لوگ بیویوں کے ہاتھ میں پیسہ دیتے ہی نہیں،جو دیتے ہیں وہ حساب لیتے ہیں کہ کدھر خرچ کیا؟ گھر سے باہر کسی ضرورت مند کو پیسے دینا کار ثواب سمجھتے ہیں لیکن بیوی اگر مانگے تو نہیں دیتے،حالانکہ بیوی پر خرچ کرنے کا ثواب زیادہ ہے،حدیث میں ہے”دینار تنفقہ علی اھلک” ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےایک مہنگی شال خریدی جس کی قیمت بہت زیادہ تھی . پوچھا گیا اتنی قیمتی شال کس کے لیے؟
تو فرمایا "اپنی بیوی نائلہ کے لیے خریدی ہے”
بیویوں سے قانونی معاملہ نہ کرو،انہیں محبت دو۔
محبت کرنا سیکھو،نفرتیں نہ پیدا کرو،
میں نے کچھ عرصہ پہلے تلمبہ کے بازار حسن کے مردوں اور عورتوں کو اپنے مدرسہ میں بیٹھا کر باعزت طریقے سے کھانا کھلایا تو ان کا ایک چودھری کہنے لگا "بدکاروں کو سینے سے لگایا،آپ کی بڑی مہربانی” ایک کہنے لگا کہ "ان مولویوں نے ہم سے ہمارا اللہ چھین لیا ہے”
ہائے ہائے! کیا ہی مہربان ہے اللہ اور کیا ہی شدت ہے خطابت میں، ہمارا کام تو اللہ سے ملانا تھا لیکن ہم نے تو آس ہی مٹا دی ،میں تمہیں کیا بتاؤن کہ طوائف کتنی مجبور ہوتی ہیں،انسان کی فطرت ہی نہیں ہے کہ اپنے روزانہ اپنے جسم کو بیچنے پر آمادہ ہو جائے۔ہمارا دیندار طبقہ انتہائی نفرت کا شکار ہے،جس سے اختلاف ہوتا ہے اس سے نفرت،پچھلے آٹھ سال سے ہر جمعہ کو اس بازار حسن میں تعلیم ہو رہی ہے اور اللہ کے فضل سے بہت سوں نے توبہ تائب ہو کر عزت سے شادی کر لی ہے،جو رہ گئی ہیں وہ بھہ جھولی پھیلا کر بیٹھی ہیں کہ کوئی عزت کا رکھوالا مل جائے۔
رشتوں ناطوں میں نرمی کرو،شرعی پردے کے نام پر فساد نہ کرو،کیا خیمہ نما بستیوں میں آج کا شرعی پردہ نافذ ہو سکتا ہے؟یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے علم میں آیا ہے کہ کئی دوستوں نے اسی طرح اپنے گھر برباد کر دیے ہیں، حضرت نوح اور حضرت لوط علیھما السلام نے تو کفر کے باوجود اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی تھی،کیا ہی جگرا تھا ان کا، یہاں تو ذرا ذرا سی بات پر بیویوں پر ہاتھ اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن میں لکھا ہے بیویوں کو مارو،”فاضربوھن” کا مطلب آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بیان فرما دیا تھا،میں ہر سال حج کے موقع پر خطبہ حجۃ الوداع بیان کرتا ہوں کہ مارنے کا حکم اس وقت ہے جب بیوی امانت میں خیانت کرے،تمہارے بستر پر کسی اور کو آنے کی اجازت دے دے، اپنی بیویوں پر شک کر کے اپنے گھر مت اجاڑو، وہ بیویاں بھی نادان ہیں جو شوہروں کے موبائل چیک کرتی ہیں۔
میرے عزیزو! اس معاشرے کے مثبت فرد بنو،دوسروں کی کمیاں نہ دیکھو،ہر منفی پر مثبت ہوجاؤ،طعنے نہ دیا کرو،حضرت یوسف علیہ السلام کو نہیں دیکھتے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنی کہانی سنانے بیٹھے تو بات شروع ہی جیل سے نکلنے سے کی”اذاخرجنی من السجن جیل جانے سے پہلے بھائیوں نے کیا کچھ کیا لیکن اس کو بیان ہی نہیں کیا،ورنہ ایسے موقع پر تو طعن و تشنیع کے نشتر چلائے جاتے ہیں،ہم تو طعنہ دے دے کر اگلے کوماردیتے ہیں۔”
ان کے علاوہ بھی مولانا صاحب نے انتہائی اہم باتیں کیں جو اگلی نشست میں پیش کی جائیں گی۔