امریکہ: ایک انسان دشمن سامراج

نکاراگوا نے امریکہ کے کیخلاف الزامات عائد کرتے ہوئے عالمی عدالت سے رجوع کیا تو اُس دور کے امریکی وزیر خارجہ جارج چیلز نے بہت ہنسی اُڑائی. اُس نے نکاراگوا کے اِس عمل کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا "یہ لوگ معاملات میں ہماری طاقت کے عنصر کو نظرانداز کررہے ہیں. نکاراگوا بیرونی ثالثی، اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالت جیسے یوٹوپیائی زرائع کو استعمال کررہا ہے. امریکہ کسی کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ ہمیں یہ بتائیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا.” اِسی عالمی عدالت نے امریکہ کو تاوان ادا کرنے کو کہا، مگر امریکہ نے اِس بات کو سختی سے رد کر دیا اور کہا کہ عالمی عدالت ایک "معاند فورم”( HOSTILE FORUM) ہے. پھر امریکہ نے قومی سلامتی کی اُس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں تمام ریاستوں سے کہا گیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پابندی کریں. امریکہ نے جنرل اسمبلی کی ایسی ہی کئی قراردادوں کو تن تنہا ویٹو کیا ہے. سابق امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن کے مطابق "امریکہ کلیدی مارکیٹوں، توانائی کی رسد اور تزویراتی وسائل تک آزادانہ رسائی کو یقینی بنانے کیلئے فوجی طاقت سمیت ہرقسم کے اقدامات کر سکتا ہے.”

تاریخ کے کئی واقعات اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ جب کسی ملک پہ حملے کا سوچتا ہے تو اُس ملک کے خلاف جھوٹ پہ مبنی ایک پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کرتا ہے. طاقتور میڈیا ہاؤسز اور پرنٹ میڈیا امریکی مہم کے آلہ کار بنتے ہیں. بڑے بڑے صحافی اور بااثر مضمون نگار میدان میں اتارے جاتے ہیں. الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے. برسات کے موسم میں جیسے حشرات زمیں سے باہر نکلتے ہیں، ایسے ہی کئی ادارے امریکہ کی پائپ لائن سے باہر آتے ہیں. اُس ملک کو شیطان و ابلیس کا گھر ثابت کیا جاتا ہے. امنِ عالم کیلیے خطرناک ترین ملک کہا جاتا ہے. انسانی حقوق کی پامالیاں دیکھائی اور پیش کی جاتی ہیں. کل تک جو لوگ اُس "شیطان ملک” کے حق میں ہوتے ہیں وہ بھی اِس پروپیگنڈہ مہم کے زیراثر آجاتے ہیں. پھر امریکہ کی جانباز فوج کی پیش قدمی اور طیاروں کی پروازیں شروع ہو جاتی ہیں. تباہی، قتل و غارت اور بربریت کے ایک دور کا آغاز کیا جاتا ہے. عراق کے اندر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور افغانستان کی کہانی تو سب کو یاد ہوگی. یہ ہے جدید دنیا کا خود ساختہ انسان دوست امریکہ!

براہ راست فوجی کارروائی کے علاوہ امریکہ کا دامن تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات کے سبب بھی داغ دار ہے. مثال کے طور پر اسرائیلی جارحیت کی کھلم کھلا امریکی پشت پناہی سے کون واقف نہیں ہے. صرف لبنان پر مسلسل اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں معصوم لوگ قیمہ بنا دئیے گئے اور لاکھوں لوگ بےگھر ہو کر مسلسل اذیت کا شکار ہوئے. امریکہ نے اِس شیطانی کھیل میں اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا. بلاشبہ امریکہ ہی موجودہ عہد کا سب سے بڑا شیطان ہے. اِسی طرح نیٹو( NATO ) کے اندر ترکی نے جب وسیع پیمانے پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کی تو یہی امریکی ریاست تھی جس نے بےتحاشا اسلحے کی فراہمی کو یقینی بنائے رکھا. ترکی کی طرف سے ظلم و تشدد بھی بڑھا تو اسلحے کی فراہمی بھی بڑھی. کولمبیا ہی کی مثال دیکھ لیجیے. انسانی حقوق کی پامالی کا نیا چیمپئن کولمبیا بھی یہ "مقام” امریکی امداد سے حاصل کر سکا ہے. اِسی سلسلے کی ایک کڑی انڈونیشیا دیکھ لیجیے. آئزن ہاور نے وہاں ایک بڑا امریکی مشن کامیاب کروایا جس کے نتیجے میں پارلیمانی ادارے تحلیل کیے گئے اور چالیس برسوں تک ہرقسمی دہشتگردی کو "سپورٹ” کیا گیا. لاؤس کے انتخابات کی سبوتاژی سے لیکر برمی حکومت کی جڑیں کاٹنے تک، جنوبی ویتنام میں دہشت گردی کی پشت پناہی سے لیکر براہ راست جارحیت تک کی مثالیں امریکہ کو شیطان ریاست ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں کیا؟

آج کل امریکہ اور اُس کے "اتحادی” ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں کہ "کہیں ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں”. کیا کسی میں اتنی جرات ہے جو امریکہ سے پوچھے کہ ایٹم بم بنانے کے علاوہ اُسکو چلانے والے کون لوگ تھے؟ ڈیزی کتر بمباری سے معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قیمہ کس ملک نے بنایا؟ کس ملک کے سُپر سانک طیاروں کی گھن گھرج سے عَالم کا عَالم خوف میں مبتلا رہتا ہے؟ کس ملک کے بحری بیڑوں نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے؟ امریکہ آج بھی اپنے سکولوں اور ادویات پہ اتنا خرچ نہیں کرتا جتنا گولیوں اور گولہ بارود پہ خرچ کرتا ہے. افسوس کی بات یہ ہے کہ 2009ء میں جب امریکی صدر باراک اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا، صرف اُسی سال میں امریکی ریاست نے 700 بلین ڈالر جنگوں اور تباہ کاریوں پہ خرچ کیے. کیسی شرمناک منافقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے. کیا امریکہ باقی مجموعی دنیا کے ممالک کی طرف سے خرچ ہونے والے فوجی اخراجات سے بھی زیادہ اخراجات نہیں کر رہا ہے؟

ایسے کئی ایک امور جو امریکہ کے سوا کوئی اور کرتا تو بہت بڑے مظالم اور جرائم تصور کیے جاتے. مثال کے طور پر 1985ء میں ایک مسلمان راہنما کو قتل کرنے کیلیے کار بم دھماکے میں 80 لبنانیوں کی ہلاکت… یہ سب کچھ سی آئی اے کی تحریک تھی. اسی طرح غریب افریقی ملک سوڈان کے بیمار عوام کیلئے جانے والی ادویات کی رسد کو 1998ء میں رُکوا دیا گیا جس کے نتیجے میں بےپناہ ہلاکتیں ہوئیں. اِس حوالے سے اقوام متحدہ کے تحت ایک تفتیش شروع ہوئی تو امریکہ نے بدمعاشی کرتے ہوئے اُس تفتیش کو بھی رکوا دیا. اگر یہ ادویات کی رسد کو روکنے والا کام کسی اسلامی دہشت گرد تنظیم کی طرف کیا گیا ہوتا تو ردعمل یقیناً مختلف ہوتا. اِس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ معاشی پابندیوں کی ایک طویل تاریخ ہے. اِن معاشی پابندیوں کے نتیجے میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے. شدید غربت، بیماریاں اور جہالت امریکی معاشی پابندیوں کا نتیجہ ہیں. وسیع دہشت گردی کی ایسی کئی مثالیں ہیں جو امریکہ کے کھاتے میں رقم ہیں.

انسانی ہلاکتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا. لیکن امریکہ جیسی انسان دشمن ریاست کے لیے جرائم اہمیت نہیں رکھتے. اِن مثالوں کو تاریخ کے صفحات سے ہی مٹا دیا جاتا ہے یا انسان دوست ارادے میں ڈھال دیا جاتا ہے جیسا کہ ویتنام یا پھر عراق کے خلاف جنگ کا آغاز "اچھا کرنے کی غلط کوششوں” سے ہوا. حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ مداخلت ایک تباہ کن حرکت تھی. امریکی حملوں سے تباہ ہونے والے ملکوں میں ملبے لاکھوں لاشوں سے پٹے پڑے ہیں. سیکڑوں بچے اَن پھٹے امریکی گولہ بارود کے پھٹنے سے مر جاتے ہیں. ہزاروں لوگ کیمیائی جنگ کے اثرات سے ہنوز مر رہے ہیں. لیکن یہ امریکہ کا دردِ سر نہیں. معذرت اور تاوان تو درکنار، اُلٹا مزید دھمکیاں دی جاتی ہیں.

اِس کے برعکس لبرل طبقہ امریکہ کو "روشن خیال ریاستوں” کا قائد مانتے ہوئے اُس کی تعظیم کرتا ہے. آج کی جھوٹی دنیا میں "روشن خیال ریاست” اُس ریاست کو کہا جاتا ہے جنہیں اپنی من مانی سے تشدد کا دائمی حق حاصل ہوتا ہے. نیویارک ٹائمز کے جھوٹے الفاظ کے مطابق امریکی پالیسیاں "مذہبی اُجلے پن” کیساتھ ایک "شریفانہ مقام” پہ فائز ہیں کیونکہ امریکہ کا ریکارڈ بین الاقوامی جرائم سے پاک ہے اور عظیم ہے. نیویارک ٹائمز کے لکھاریوں کو شرم آنی چاہیے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے