کیا جنید جمشید کی پٹائی درست ہے؟

آج پاکستانی سوشل میڈیا پر مبلغ عرف ریٹائرڈ پاپ گلوکار جنید جمشید کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر دھنائی زیرِ بحث ہے۔ کوئی مذمت کر رہا ہے اور کوئی پٹائی کی کمی کا شکوہ، کوئی ریاست کو فروغِ عدم برداشت کا بانی کہہ رہا ہے تو کوئی اس ’جنیدی ٹھکائی‘ کو ایک فرقے کے چند سر پھروں کے ہاتھوں دوسرے فرقے کے سر پھرے پر حملہ قرار دے رہا ہے۔

وجہ کچھ بھی ہو مگر حیرت کسی کو بھی نہیں، نہ پٹنے والے کو، نہ پیٹنے والوں کو ، نہ فیس بکی مذمتیوں کو اور نہ ہی ٹویٹری حمایتیوں کو۔

حیرت کو کیا رونا کہ سماج سے طائر ِشک کب کا اڑ چکا۔ اب یہاں منطق، دلیل، درگزر، صلہ رحمی و تلافی وغیرہ کی حیثیت کھوٹے سکے سے زیادہ کی نہیں۔

تو کیا یہ معجزے کے برابر نہیں کہ ہم سب آنکھوں پر یقین کی موٹی پٹی باندھے اپنے سوا سب کو صاف صاف پورا پورا دن رات دیکھ سکتے ہیں۔

یہ یقین ہی ہے کہ مفتی بھی میں، قاضی بھی میں، داروغہ بھی میں، سامنے والے کے الفاظ، اشارات، کنایات و نیت کا شارح بھی میں اور اس شرح کی روشنی میں سامنے والے کو کیفرِ کردار تک پہنچانے یا بری کرنے والا بھی میں اور سامنے والے کو دوزخ یا جنت الاٹ کرنے والا بھی میں۔

جس سماج میں کم و بیش ہر کوئی وبائی خود یقینی میں مبتلا ہو وہاں اپنے سوا کوئی بھی مثالی مسلمان دکھائی دے ہی نہیں سکتا۔سارا دھیان دوسرے کے اعمال و افعال و آخرت سنوارنے میں لگ جاتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہم دوسرے کو ٹھیک کرتے کرتے کب انسانی زینے سے اترتے ہوئے قاتل یا مجرم بن گئے۔

مگر فکر نہ کیجئے۔ ہر وہ شخص جو سامنے والے کا عقیدہ درست کرتے کرتے اس کے قتل کا مرتکب ہو بھی جائے تو بھی سودا گھاٹے کا نہیں ۔ بس خود کو اتنی ہی تسلی تو دینی ہے کہ قاتل یا پیٹنے والے کا فعل بھلے کیسا بھی ہو اگر نیت بھلی ہے تو زمینی قوانین توڑنا بالکل جائز ہے ۔اور جس نے بھی کیا ٹھیک کیا۔

یہی وہ سوچ ہے جس کے تحت خود کو مسلمان کہنے والا کوئی بھی جنید جمشید کی زدوکوبی عین ثواب قرار دے سکتا ہے۔ایسے کسی فیصلے تک پہنچنے کے کسی دور میں علمی و فقہی پس منظر کی ضرورت ہوتی ہو تو ہو لیکن آج الحمداللہ دورِ سرشاری ہے اور سرشاری کو کسی فیصلے تک پہنچنے کے لئے کسی منطق ، اہلیت یا علمی پس منظر کی حاجت نہیں۔ خود پر، اپنی رائے اور سامنے والے کے ایمان کی کمزوری پر پختہ یقین ہی تو ہے جس سے ہم سب بری طرح سرشار گھوم رہے ہیں۔

بس کوئی دن جاتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سامنے والے کے لئے سلمان تاثیر ، ممتاز قادری اور جنید جمشید میں سے کوئی بھی کبھی بھی کہیں بھی بن جائے گا۔ ہم جس شاہراہِ شک پر یقینِ محکم سے مسلح چل نکلے ہیں اس کا آخری پڑاؤ کسی نے نہیں دیکھا حتی کہ ایک دوسرے کی جان لینے اور دینے والوں نے بھی نہیں ۔

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے ( جون ایلیا )

مجھے یقین ہے کہ جو آخری آدمی ہلاک ہونے سے بچ جائے گا وہی اچھا سچا مسلمان ہوگا۔کم ازکم ایسا مسلمان جو کسی اور کے ایمان پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے