ہنستے بستے شہرِ لاہور میں ایک اور خوں فشان شام اتری۔یہ گلشن اقبال پارک ہے جو اسی مون مارکیٹ کے جوار میں واقع ہے جہاں کچھ برس قبل ایسی ہی ایک شام نے درجنوں جانیں نگل لی تھیں ۔اس وسیع وعریض پارک میں ہمیشہ کافی ہجوم رہتا ہے مگر یہ شام معمول سے زیادہ پر رونق تھی۔ایک تو اتوار کی چھٹی دوسرے ملک میں بسنے والی مسیحی برادری کے تہوار ایسٹر کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ مضافاتِ شہر سے بھی کئی خاندان اس پارک میںآئے ہوئے تھے۔بچوں کی بڑی تعداد چھٹی کی یہ شام منانے یہاں موجود تھی۔ ہاتھوں میں آئس کریم،پاپ کارن اور غبارے تھامے یہ معصوم بچے اپنی دنیا میں محو تھے جہاں صرف معصوم خواہشیں اور میٹھی محبتیں ہوتی ہیں۔ پارک میں نصب برقی جھولوں کے آس پاس زیادہ ہجوم تھا۔بہت سے بچے اپنے ماں باپ کی انگلیاں تھامے جھولوں کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔اسی دوران ایک کانوں کو پھاڑنے والی زور دار آواز کے ساتھ ہی منظر بدل جاتا ہے ۔ ہر طرف گردوغبار اور دھویں کے بادل چھاجاتے ہیں اور بچوں کی کلکاریاں ،قہقہے اور مسکراہٹیں کہیں گم ہو جاتی ہیں اور خوشبوؤں سے معمور اس تفریح گاہ کی فضاء بارود کی کریہہ بو سے بھر جاتی ہے ۔ چار سو ہاہاکار مچتی ہے اور دل دوز چیخیں بلند ہوتی ہیں ۔دھواں کچھ چھٹتا ہے تو اردگرد چاروں طرف خون میں لتھڑے جسمانی اعضاء بکھرے دکھائی دیتے ہیں ۔جابجا ادھڑے ہوئے کراہتے بدن اپنی بچی کھچی توانائیاں کام میں لاکر مدد کی فریادکرتے نظر آتے ہیں اور موت ان دریدہ جسموں کے درمیان برہنہ رقصاں دکھائی دیتی ہے۔
گلشن اقبال پارک میں کئی ایسی مائیں بھی تھیں جن سے ان بے رحم لمحوں نے جگر گوشے چھین لیے اور کئی ایسے لال تھے جن کی جنتیں اجڑ چکی تھیں۔ چیختی چنگارٹی ایمبولینسوں نے ماحول اور بھی خوفناک بنا دیا تھا۔ جناح ہسپتال کے مردہ خانے میں لاش سے لاش جڑی پڑی تھی۔ کئی نعشیں ایسی بھی تھیں جن کی شناخت بھی گم ہو چکی تھی۔ ہسپتال کی ایمرجنسی کے مناظر بھی کم ہولناک نہ تھے۔ کٹے پھٹے خون آلود لاشوں کو ایمبولینسوں سے اسڑیچروں پر لاد کر لوگ اندر کی جانب بھاگ رہے تھے۔ کوئی اپنی گمشدہ بچی کی تلاش میں ہلکان تھا تو کوئی زخمی بچہ اپنے بابا کو پکار رہا تھا۔ ایمرجنسی میں بستر کم پڑ گئے تو بہت سے زخمی برآمدے میں لٹا دیے گئے اور اس بھاگ دوڑ میں ڈاکٹربھی پریشان تھے کہ پہلے کس کے درد کا درماں کیا جائے کیونکہ ہر شخص کا درد اس کے نزدیک دوا کا سب سے زیادہ مستحق ہوتا ہے ۔
دھماکہ ہوا تو ابتدائی اطلاعات میں 10 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر چلی اور پھر مسلسل اس تعداد میں اضافہ ہو گیا۔دو درجن لوگوں کے لقمۂ اجل بن جانے کی خبر رات کے دوسرے پہر تک 6درجن ہلاکتوں تک پہنچ چکی تھی۔ ٹی وی چینلوں پر دردناک مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ پارک میں پڑا ایسا موبائل فون بھی دکھایا جا رہا تھا جس کی اسکرین پر ’امی جان‘ کے نام سے مسلسل ایک کال آ رہی تھی۔ کوئی ماں اپنے دل کے ٹکڑے کی تلاش میں تھی۔ ایک معصوم پھول کی نعش جس کے چہرے اور ننھے منے گداز ہاتھ خون سے رنگین تھے۔ جناح ہسپتال کے احاطے میں ایک ماں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھے کہ وہ اپنے مردہ خاوند اور بچے کو زندہ واپس لے کر جائے گی۔
ایسٹر کے دن کی مناسبت سے مسیحی برادری کے بہت سے خاندان اپنے بچوں کے ساتھ اس پارک میں موجود تھے۔ مسیحیوں کے کم ازکم دس ایسے خاندان ہیں جن کی خوشیاں اس سانحے کے نتیجے میں سوگ میں بدل گئیں۔اس ماں کا تصور کر کے دل کٹتا ہے جس نے صبح عید کے تہوار کے لیے بچوں کو تیار کر کے بھیجاتھا اور اب وہ ان کی لاشوں کی تلاش میں بھٹکتی پر رہی تھی ۔ رحمت مسیح کے خاندان کے 19 افراد پارک میں موجود تھے جن میں سے 9 کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ صفیہ نامی مسیحی خاتون اپنے خاندان کے 5 افراد کی لاشوں پر بیٹھی بین کر رہی تھی اور مزید 7 کی تلاش میں تھی۔ جناح ہسپتال میں ایک ایمبولینس کے ساتھ کھڑے زاروقطار روتے اس نوجوان کے دکھ کو کن لفظوں میں بیان کیا جائے جس کے دوبھائی اور بہن اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے اور زخمی باپ کی ایمر جنسی میں نبضیں ڈوب رہی تھیں ۔ ہسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی شہناز اپنے لاپتہ بیٹے ساحل کی تلاش میں رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی جسے اس نے ایسٹر منانے کے لیے دوستوں کے ہمراہ بھیجا تھا۔کیا کیا بیان کیجیے بس آسمان بھی اس لہولہوشام کوساکت وجامد دیکھ رہا تھا۔
یہ دکھ کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کا نہیں بلکہ مشترکہ طور پر انسانوں کا ہے۔ دھماکہ کرنے والے نے پارک میں موجود کسی بھی شخص کو پہچان کر ہدف نہیں بنایا ۔اس سفاک صفت کا نشانہ صر ف اور صرف انسان تھے۔ اس المیے نے جہاں تمام پاکستانیوں کے دلوں کو غمزدہ کر دیا وہیں انسانیت کی بنیاد پر محبت اور ہمدردی کے اثر انگیز مظاہر بھی دیکھے گئے ۔دھماکے کے بعد جناح ہسپتال میں خون عطیہ کرنے والے افراد کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے اور رات گئے ہسپتال انتظامیہ کو یہ اعلان لکھ کر مرکزی دروازے پر لگانا پڑا کہ ’’ہسپتال کے پاس خون کی مناسب مقدار جمع ہوگئی ہے لہذا مزید کی ضرورت نہیں۔ ‘‘یہ خون زخمی انسانوں کو انسانوں نے عطیہ کیا تھا ۔کسی نے خون کے مستحق اور عطیہ کرنے والے کا مذہب نہیں پوچھا ۔ کوئی سمجھے تو یہ انسانی ایثار کی انوکھی مثال ہے۔
لاہور کے اس خون آشام سانحے کے بعد سرکاری سطح پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا مگر اس شام جن معصوم وجودوں کی ہنستی کھیلتی زندگیوں کی شام ہوئی ان کے گھروں میں نہ جانے کب تک سوگ کا سماں رہے گا۔ یہ کرب کے لمحے ہیں لیکن انسانیت کی ہار ہر گز نہیں۔ان بے گناہوں کے لہوسے امن کی بہار ضرور آئے گی اور انسان ایک ایسی صبح ضرور دیکھیں گے جہاں مذہب، نسل ،قوم اور زبان کی بنیاد پر کوئی کسی کی زندگی نہیں چھینے گا۔ المیے پر لکھتے ہوئے ماؤف ذہن میں دستیاب الفاظ بھی ہاتھ جوڑے اپنی کوتاہ دامنی کا شکوہ کر رہے ہیں ۔ایسے میں فرازسے مدد لیے بنا چارہ نہیں۔
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ رویا تو مر جائے گا
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)