اپ سب جانتے ہیں کہ سیاست میں دلچسپی ویسے ہی کافی کم کر دی ہے کہ ‘اور بھی غم ہیں زمانے میں اس نگوڑی کے سوا’ اور کل کے سانحات کے بعد تو سیاست پر لکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اگر نظر ایک خبر پر نہ آ ٹھہرتی،
ہوا کچھ یوں کہ کل چھوٹے میاں صاحب نے لاہور کی چھ درجن سے زائد لاشوں پر اپنی مشہور زمانہ اندوہناک بلکہ میرے لیے تو کربناک ڈرامے بازی کر کے میرا اس خودکش حملہ آور ‘صاحب’ سے زیادہ دل دکھایا جس نے ڈیڑھ سو کلو بارود سے درجنوں کلیاں کھلنے سے پہلے مسل دیں، اس ‘جنت کے راہی’ سے تو مجھے کوئی گلہ نہیں(کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ "قاتل کی اگر نیت صاف تو سمجھو بیڑا پار ہے” ، کم سے کم مجھے اس خودکش کی نیت پر کوئی شک نہیں کہ شریعت کے نفاذ کے علاوہ کوئی چیز پھٹنے پر مجبور نہیں کر سکتی چنانچہ آپ سب سے میری اپیل ہے کہ خودکش کو خود کش صاحب لکھا اور پڑھا کریں) خیر وہ بدبخت تو تھا ہی برین واشڈ پیپا، اس نے تو نادانی میں قیامت ڈھا دی لیکن ہمارے چھوٹے میاں صاحب تو ایک ذمہ دار منتظم تھے ناں انہوں نے بھلا یہ کیا خباثت دکھا دی؟
بجائے انتظامی امور میں جان کھپانے کے اپنا "کینسر زدہ” خون ڈونیٹ کر کے مجھ سمیت ہر اس پاکستانی کا سر شرم سے جھکا دیا جو ان کے اس نام نہاد پڑھے لکھے صوبے کا باسی ہے-
اگر ہمارے حکمران ہی اتنے سفاک ہیں کہ اپنی نااہلی کی وجہ سے گری لاشوں پر شرمندگی، خفگی اور معذرت خواہی کے سیاست چمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،
اگر سفاکیت کی یہی معراج ہو تو پھر آپ بھی میرے ہم آواز ہو کر بولیے!
دہشتگردو!!! تم سچے ہو، ممتاز قادریو تم بھی سچے ہو، ہاں ہاں جنید کے نورانی و اسلامی چہرے پر چپیڑیں مارنے والو، لال مسجد میں جنگ کے لیے خندقیں کھودنے والو تم سب سچے ہو میرے بھائیو، سنو ملک اسحاقو تمہاری ‘عظمت صحابہ’ کانفرنس بھی سچی ہے، مفتی حنیف قریشیو تمہاری لبیک یا رسول اللہ کانفرنس بھی سیاسی پیٹ پوجا نہیں تم بھی سچے ہو، ہاں ہاں قائد اعظم کو کافر اعظم اور ان کے پاکستان کو کافرستان کہنے والے ملا ریڈیو تم بھی سچے ہو اور تو اور ہم سب پاکستانیوں کو ڈنکے کی چوٹ پر واجب القتل قرار دینے والے تمہارے سب پیشرو بھی سچے تھے-
ہاں بھئی جھوٹے تو صرف ہم ہیں جو ان حکمرانوں کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے….!!!
ہم یہی کہتے ہیں کہ پنجاب کا یہ سفاک ذہنی مریض درندہ صفت شخص دس کروڑ انسانی دل رکھنے والے شہریوں کا نمائندہ ہرگز نہیں ہو سکتا، ہاں ہاں کوئی انسانی دل رکھنے والا "انسان” چھ درجن انسانی لاشوں پر سیاسی شعبدہ بازی ہرگز نہیں کر سکتا-
سوچو تو سہی کیا قیامت ہو اگر ہسپتال کی افراتفری اور قیامت سوزی میں یہ "کینسر زدہ” خون کسی معصوم زخمی بچے کو لگ جائے؟
کسی کی ماں کو کسی کے باپ کو لگ جائے؟
صرف دو ٹکے کی سیاست؟
اور سفاکیت کی حد ہے سارا میڈیا یہ خباثت پوری ڈھٹائی سے دکھاتا رہا-
کیا اشتہاروں کے پیسے انسانیت سے آگے نکل چکے؟
خادم اعلی صاحب آپ ہی بتا دیں کہ ہم آپ میں اور اس درندہ صفت خودکش میں کیا فرق کریں؟
خیر چھوڑیے—
فیض صاحب یاد آ گئے
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
ہمارے شہیدو! ہم شرمندہ ہیں، ہمیں معاف کر دینا، ہم اب واقعی اس ملک اور اس صوبے میں رہنے پر خود کو شرمندہ پاتے ہیں-
بس ہمیں معاف کرو – – –