کل پھر عالم برزخ میں معصوم نہتے پاکستانی بچوں کا ایک غول اڑ کر پہنچا ۔یہ معصوم سوچ رہے ہیں ہم تو پارک میں مزے سے جھولے لئے رہے تھے ابھی تو پاپ کارن ، بھنے چنے ،برگر ،آئیس کریم اور میٹھے لچھے کھانا باقی تھے ۔ابھی تو کشتی کی سیر کرنی تھی چڑیا گھر بھی جانا تھا پر ایک زور دار آواز کے بعد ہم سب بچے رونے لگے پھر ہم یکدم یہاں کیسے آگئے امی ابو کہاں گئے۔
ایک بچہ دوسرے بچے سے کہنے لگا میں نے کوئی ضد بھی نہیں کی تھی نا کسی چیز کی فرمائش پھر بھی ہم یہاں کیسے آگئے۔دوسرے بچے نے کہا میرے امتحان ابھی ختم ہوئے تھے 31 مارچ کو میرا نتیجہ آنا تھا میں تو خود فرمائش کرکے پارک آیا تھا کیونکہ میں نے ماما پاپا کو بتا دیا تھا کلاس میں اس بار میں ہی فرسٹ آوں گا۔ میں گلشن اقبال پارک آیا خوب کشتی کی سیر پھر یکدم دھماکہ ہوا ہر طرف شور آگ اور مٹی کا طوفان پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔دہشت گرد گندے ہیں وہ کبھی ہمارے سکولوں تو کبھی پارکوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
تیسرا بچہ بولا جب میں بڑے گول والے ویل میں بیٹھا تھا تو سب کچھ کتنا اچھا لگ رہا تھا جب جھولا یکدم نیچے آتا تو مجھے کتنا ڈر لگتا لیکن نیچے ہاتھ ہلاتے امی ابو کو دیکھ کر میں بہادر بننے کی کوشش کرتا اور چہرے پر خوف کو طاری نا ہونے دیتا کیونکہ میں خود فرمائش کرکے گلشن اقبال پارک جو آیا تھا۔مجھے معلوم تھا امی ابو مجھے مالز میں بنے مہنگے انڈور پارکس میں نہیں لئے کر جاسکتے وہاں جھولوں کے ٹکٹ مہنگے جو ہوئے۔
آج اتوار کا دن تھا اور ایسٹر بھی میری طرح بہت بچے پارک میں مزے کر رہے تھے۔کوئی جھولے لئے رہا تھا کوئی دوڑ لگا رہا تھا تو کوئی مزے مزے کی چیزیں کھا رہا تھا۔ہم سب خوشی سے کبھی ایک جھولے تو دوسرے جھولے پر جارہے تھے۔بس یکدم ایک آواز آئی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئ ۔میرے سارے پسندیدہ جھولے ٹوٹ گئے۔جو دوست میں نے پارک میں آکر بنائے تھے وہ سب خون سے نہا گئے۔مجھے امی ابو بھی نہیں مل رہے تھے اور میں کب یہاں پہنچ گیا معلوم نہیں۔
ان لاہور کے بچوں کے پاس اے پی ایس پشاور کے بچے آکر پوچھنے لگے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہماری قربانی کے بعد شاید پاکستان میں آگ و خون کا کھیل رک گیا ہوگا ۔شاید ہمارے جانے کے بعد انکل نواز نے انکل راحیل اور انکل عمران کے ساتھ مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کردیا ہوگیا۔کیا آج بھی پاکستانی متحد نہیں کیا آج بھی دہشتگردوں کو اچھے برے کی تفریق سے جانا جاتا ہے۔کیا آج بھی دہشتگرد ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بناریے ہیں۔
لاہور اور پشاور کے شہید بچے پھر سسکتے ہوئے دعا کرنے لگے کہ اے اللہ پاکستانیوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کر۔ پاکستانی اپنے اصل دشمنوں کو پہچان سکیں اور اپنے بچوں کو دہشتگردی سے محفوظ رکھ سکیں ۔پھر کوئی والدین اپنے بچوں کو دہشتگردی میں ہمیشہ کے لئے کھو دینے کے کرب سے نا گزرے جس سے ہمارے والدین گزر رہے ہیں۔پھر کبھی کسی بچے کا بستہ خون سے تر نا ہو پھر کسی بچے کے پسندیدہ جھولے نا ٹوٹیں ۔ آمین