”لوگ کیا کہیں‌گے”

انسانی زندگی کیاہے؟ زندگی کی نشیب وفراز میں موجود یہ غم کا احساس کیا ہے؟ اس مختصر حیات پرپر یشانی کا پہرہ کیوں ہے؟

شاید مختلف لوگوں کے لیے اس کا جواب مختلف ہو مگر اس جواب کا ایک رخ پچھتاوے جیسے احساس سے ضرور جڑا ہوتا ہے۔اور اس احساس کی بنیاد ہمیشہ سے ہماری بزدلی اورہمارا خوف ہے۔

جب انسان فطرت سلیمہ لے کر اس جہاں میں آتا ہے تو وہ ایک معصوم سی ننھی جان ہوتا ہے ۔چہرے پر سکون تاثرات سجائے گناہوں سے پاک فرشتوں کی مانند۔اس کے معصوم سے دل کو اگر ایک حسین کلی سے تشبیہہ دی جائے تو بے جا نہ ہو گا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کلی کھلنے لگتی ہے ۔

آہستہ آہستہ اس پر بہت سے بیرونی عوامل اثر انداز ہو نے لگتے ہیں۔اس کھلتی ہوئی کلی کی معصومیت کملانے لگتی ہے۔گناہوں کی طرف رغبت اسے اردگرد کے ماحول کے مطابق ڈھالنے لگتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انسان کی پہلی درس گاہ اس کا گھر ہوتا ہے۔جہاں سے وہ زندگی کی رنگا رنگی کو سیکھنے لگتا ہے۔ وہ اپنے بڑوں جو کچھ کرتے دیکھتا ہے ،اس میں بھی وہی کرنے کی جستجو پیدا ہونے لگتی ہے اور بالآخر وہ وہی کرنے بھی لگ جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا نو جوان بچپن سے ہی ایک ہنر سیکھ جاتا ہے۔وہ ہنر ہے کہ کس طرح سے "لوگ کیا کہیں گے "والے اس معاشرے میں زندگی کے دن گزارنے ہیں۔کس طرح اپنی خواہشوں کا قتل کر کے ،اپنی آرزؤں کا گلا گھونٹ کر اور اپنی امیدوں کی قربانی دے کر معاشرے کے ساتھ چلنا ہے۔اس کے سب بڑے بھی تو ایسا ہی کرتے آئے ہیں تبھی تو اس نے زندگی بتانے کے لیے یہ ہنر سیکھ لیا ہے۔ بڑوں کا یہ طرزعمل کچھ عجب نہیں ۔آخر یہی تو ہمارے معاشرے میں نام نہاد عزت دار زندگی گزارنے کا بنیادی تقاضا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ

کیا ایسا کر کے ہم حقیقی طورخوش رہ سکتے ہیں؟ یہ زندگی جو خدا کی دی ہوئی نعمت ہے کیا اسے گھٹ گھٹ کر جینا کفران نعمت نہیں؟؟؟ اسے رسم و رواج کی زنجیروں میں باندھ کر رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟؟؟؟ جب یہ زندگی ہماری ہے تو اس پر اختیار دوسروں کا کیوں ہے؟؟؟؟

یہ بنیادی سوال ہیں اگر ان کے جواب حاسل ہو جائیں تو شاید سکون اور خوشی کا کوئی امکان پیدا ہو۔ باقی جہاں تک خوشی کا سوال ہے تو شاید اس روئے زمین پر کوئی ایسا انسان ہو جو پوری طرح خوش ہو ۔ کیونکہ ہم سب ہی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے سے ضرور گزر چکے ہوتے ہیں جس کی کسک ہمیں اندر ہی اندر سے کھائے جاتی ہے۔اسی شکستہ احساس کے تحت ہم "کاش”جیسے منحوس لفظ کے زیر اثر ساری زندگی گھسیٹتے رہتے ہیں۔

آخر ہم اپنی یہ زندگی ’’دوسروں کی کچھ کہنے ‘‘ کے خوف کے تحت گزارنے پر کیوں مجبور رہتے ہیں ۔ہماری زندگی اس لفظ ’’کاش‘‘ کی کھونٹی سے کیوں بندھی رہتی ہے۔

میری نظر میں اس ’’کاش‘‘ کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر کے ڈر اور بزدلی کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ ہمیں اپنی اس حقیقی صلاحیت کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرنا ہوگا، جسے ہم "لوگ کیا کہیں گے”کے ڈر سے دبا دیتے ہیں۔

یقین کیجیے کی جس دن آپ اس صلاحیت کو بروئے کار لائیں گے اور خوف کی ساری بندشیں توڑ دیں گے توکامیابی آپ کے دروازے پر دستک دے گی۔اس لمحے یہی لوگ جب کے کچھ کہنے کے خوف سے آپ کچھ نہیں کر پاتے ،کرسیوں سے اٹھ کر تالیاں بجائیں گے اور آپ کے دوست اور رشتہ دار ہونے کا دعوی کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے