درویش نے ہماری تاریخ میں تنگ نظری کی مثالیں دیتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کا ذکر کیا تو ایک محترم بھائی کو سخت اختلاف ہوا۔ اپنے رد عمل میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ قائداعظم نے وصیت کی تھی کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ قائداعظم کی اس وصیت کا کوئی ثبوت، کوئی حوالہ دینے کی البتہ زحمت نہیں کی گئی۔ شبیر احمد عثمانی صاحب کے عقیدت مندوں میں اس قسم کے دعاوی کا رجحان بہت غالب ہے۔ جون 2013 میں الجامعہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ مفتی محمد رفیع عثمانی نے واہ آرڈیننس فیکٹری کی ایک مذہبی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قائداعظم محمد علی جناح مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنا باپ کہتے تھے۔ رفیع عثمانی صاحب سے استفسار کیا گیا کہ اس بیان کا کوئی حوالہ، کوئی شہادت؟ بابائے قوم نے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی کو یہ رتبہ کب اور کہاں عطا فرمایا؟ قائداعظم کی ذات ایک کھلی کتاب ہے۔ وہ حد درجہ خوددار، زبان و بیان کے معاملے میں غایت درجہ محتاط اور کم آمیز انسان تھے۔ قائداعظم 1876ء میں پیدا ہوئے تھے۔ شبیر احمد عثمانی کی ولادت 1886ء کی ہے۔ قائداعظم سے بعید ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے سے دس برس چھوٹے شبیر عثمانی کو اپنا باپ سمجھا یا قرار دیا ہو۔ اس نوع کے بیانات سے لازم آتا ہے کہ کہ تحریک پاکستان میں اور قیام پاکستان کے بعد شبیر احمد عثمانی کے کردار کا ایک اجمالی جائزہ بھی لیا جائے تاکہ اہل پاکستان کو معلوم تو ہوکہ وہ ہستی کون تھی جسے بقول مفتی رفیع عثمانی بابائے قوم اپنا باپ کہتے تھے۔
شبیر احمد عثمانی صاحب ابتدائی طور پر مجلس احرار کے رکن تھے۔ 1930کی دہائی میں ان کے دیو بند کے کانگرس نواز مولویوں سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ 1944ء میں مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی ۔ 1945-46ء کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کی حمایت کی۔ 26اکتوبر 1946ءکو انہوں نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی حامی تھی۔ ایک طالب علمانہ سوال بہر صورت کھٹکتا ہے۔ مسلم لیگ کا رکن ہوتے ہوئے مولانا شبیر عثمانی کو جمعیت علمائے اسلام قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جو ایک متوازی سیاسی جماعت قائم کرنے کے مترادف تھا۔ کیا وہ ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان کی رہنمائی پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ اس کا جواب جاننا ہو تو شبیر احمد عثمانی کے مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بارے میں سردار شوکت حیات کا بیان پڑھتے ہیں ۔ پڑھنے والے اپنی فہم کے مطابق اس سے نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔
”نامور دیوبندی عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک رات خواب میں اپنے استاد محترم کو دیکھا۔ جنہوں نے انہیں بتایا کہ انہوں (استاد) نے خواب میں حضور اکرم ﷺ کو مدینہ میں اپنے گھر سے باہر آتے ہوئے دیکھا۔ وہاں پر ہندوستان کے علما صف بستہ کھڑے تھے۔ قطار کی دوسری طرف حضور نے ایک دبلے پتلے، لمبے یورپی لباس پہنے عمر رسیدہ آدمی کو دیکھا جو ملاقات کا منتظر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ مسٹر جناح ہیں۔ نبی اکرم علما کی جانب سے منہ پھیر کر سیدھے جناح کی طرف گئے اور انہیں سینے سے لگا لیا۔ دوران خواب مولانا شبیر احمد عثمانی کو ان کے استاد نے حکم دیا کہ قائداعظم کے پاس جاﺅ اور فوراً اس کے سیاسی مرید بن جاﺅ۔ چنانچہ مولانا نے قائد اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ قائد نے نواب شمس الحسن ، آفس سیکرٹری مسلم لیگ، کو مولانا کے قیام دہلی کے دوران ان کی مناسب دیکھ بھال کا حکم دیا۔ “ (A Nation That Lost its Soul -صفحہ 219)
لگے ہاتھوں شبیر احمد عثمانی کے بارے میں ایک اور گواہی بھی لے لیجئے۔ عبیدالرحمن کراچی کے ایک معروف وکیل تھے۔ آبائی خطہ سیتا پور تھا مگر تعلیم لکھنو میں پائی۔ نوجوانی میں تحریک پاکستان کے ضمن میں مسلم لیگ کے ساتھ سرگرم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد طویل عرصہ مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ خواجہ ناظم الدین اور محترمہ فاطمہ جناح سے ربط رہا۔ کچھ عرصہ تحریک استقلال میں شامل رہے۔ فوجی آمر جنرل ضیاالحق کی خود ساختہ مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ اپنی خود نوشت ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘ کے صفحہ 49پر لکھتے ہیں :
”قائد اعظم لکھنو تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لئے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور عیسائی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں۔۔۔۔ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔۔۔۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے ‘۔
اس اقتباس میں قائد اعظم کے بارے میں شبیر احمد عثمانی کی قدر پیمائی اور خود اپنی ذات مقدسہ کے بارے میں خود رائی کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔
شبیر عثمانی زبان و ادب میں کوتاہ تھے۔ اردو کے صاحب طرز نثر نگار مختار مسعود ایسے سلیم الطبع ہیں کہ کسی کی ذات پر مذہبیت کی مہر دیکھتے ہی ریجھ جاتے ہیں لیکن ’آواز ِدوست‘ میں لکھتے ہیں، ”آپ نے شیخ الہند کے ترجمہ قران پاک پر شبیر احمد عثمانی کے حاشیے دیکھے ہوں گے، زبان کے لحاظ سے بہت معمولی ہیں۔“ شبیر عثمانی نے 1927ءکے لگ بھگ ’الشہاب ‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا جس میں موقف اختیار کیا تھا کہ ارتداد کی سزا موت ہے۔ جب اوودھ میں تعلقہ داریوں (جاگیروں) کا سوال اٹھا تو شبیر احمد عثمانی کا فتویٰ تھا کہ ’تعلقہ داریوں کی حفاظت میں جان دینا شہادت ہے‘۔شبیر عثمانی صاحب پاکستان میں ذمیوں ( یعنی غیر مسلم شہریوں) سے جزیہ وصول کرنے کے حق میں تھے۔ ان کی رائے میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو قانون ساز اسمبلیوں یا پالیسی ساز اداروں کے رکن بننے کا حق نہیں تھا اور نہ انہیں ’کلیدی مناصب‘ پر فائز کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں تکفیری سیاست کی لغت میں ’کلیدی منصب‘ کی مبہم لیکن نہایت خطر ناک اصطلاح محترم شبیر احمد عثمانی ہی کی دین ہے۔ شبیر احمد عثمانی کو جون 1947ءمیں مشرقی بنگال کے کوٹے میں سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔
شبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947ءکو اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی 20 روز قبل 11 اگست 1947 ءکو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا جواب تھا۔ چند جملے ملاحظہ ہوں۔ ”میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔۔۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی“۔
قائد اعظم اپنی تقریر میں فرما چکے تھے کہ ”وقت گزرنے کے ساتھ (پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، ریاست کے شہری کے طور پر“۔ چنانچہ سیاست کے غیر جمہوریت پسند حلقوں کے مہرے کے طور پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو۔ “
دیکھئے مولانا شبیر احمد عثمانی یہاں اس شخص (جناح) کی مخالفت فرما رہے تھے جس کی اقتدا کرنے کا حکم بقول خود ان کے استاد نے خواب میں دیا تھا۔
مولانا کے ان خیالات کی روشنی میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ قیام پاکستان کے بعد جناح-لیاقت کشمکش میں شبیر عثمانی لیاقت علی کے قریب تھے۔ واضح رہے کہ قائد اعظم جمہوریت کے حامی تھے جب کہ لیاقت علی پاکستان میں قدامت پسند جاگیردار سیاست کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ 14 اگست 1947 کو کراچی میں شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کے ہاتھوں پاکستان کا پرچم لہرانے کا فیصلہ بھی لیاقت علی اور چوہدری محمد علی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ تھا۔ 11 اگست 1947 کو قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں موجود تھے تو شبیر عثمانی دوسری صف میں نشستہ تھے۔ اس موقع پر اسمبلی میں کوئی مذہبی رسم منعقد نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ تلاوت تک نہیں کی گئی۔ تعجب نہیں کہ دو مولویوں کو پرچم لہرانے کا اعزاز دینا اس ٹولے کی طرف سے ایک علامتی اظہار تھا جس نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر سنسر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ شبیر احمد عثمانی تو بہرحال مشرقی بنگال کے کوٹے میں سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ ظفر احمد عثمانی کی کیا سرکاری حیثیت تھی؟ یاد رہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد فروری 1949 میں لیاقت علی اور شبیر احمد عثمانی نے مری کے مقام پر بیٹھ کر قرار داد مقاصد کا مسودہ تیار کیا تھا۔
سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس چوہدری فضل حق نے نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامے ”نظریہ“ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔ ”علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائد مرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن کی خود اختیار کردہ جلاوطنی کو سرور کائنات کے حکم پر ختم کر کے واپس آئے تھے جو انہیں سرور کائنات نے ایک خواب میں دیا تھا۔ خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائد نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم نہایت واضح تھا۔ ”محمد علی واپس جاﺅ اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو“۔ قائداعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی کہ اس واقعہ کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے “ ( بحوالہ ڈاکٹر صفدر محمود ، روز نامہ جنگ، 29 ستمبر 2011ء)
قائداعظم کی نماز جنازہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ”قائداعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائداعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“
سبحان اللہ! شیخ الاسلام کی سیاسی بصیرت میں خوابوں کو بہت دخل تھا ۔ اس میں تو کلام نہیں کہ حضرت کو رسالت مآب کی زیارت اکثر نصیب ہوتی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا کو اہم سیاسی سوالات کی وضاحت میں اپنی اس خوش نصیبی کے اظہار کی ضرورت کیوں پیش آتی تھی؟ یہ تو واضح ہے کہ ان سے نماز جنازہ سے متعلق سوال کرنے والا قائد اعظم کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتا تھا۔ مولانا نے ایسے کوتاہ اندیش کو دو ٹوک سیاسی انداز میں قائد اعظم کے مرتبے سے آگاہ کرنے کی بجائے اپنے مبارک خواب کا ذکر کیوں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کا سیاسی موقف بابائے قوم قائد اعظم کی دستوری اور سیاسی بصیرت سے متصادم تھا۔ چنانچہ انہیں اپنے سیاسی موقف کا جواز تراشتے ہوئے خوابوں میں پناہ لینا پڑتی تھی جیسے ان کے عقیدت مند اب قائد اعظم کی وصیت نکال لائے ہیں۔ ضیاالحق نے قائد اعظم کی ڈائری دریافت کی تھی اور ضیاالحق کی ذریات وصیت ایجاد کرنے کوشش میں ہے۔ نہ وہاں ثبوت دیا جا سکا اور نہ یہاں حوالہ مل سکے گا۔ واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں۔۔۔
بشکریہ ہم سب ڈاٹ کوم