میڈیا ہاوسز کو عوامی ادارہ بنایا جائے. صحافتی تنظیمیں

میڈیا ہاوسز کو کسی ایک فرد کی ملکیت سے نکال کر عوامی ادارہ بنایا جائےتاکہ میڈیا کا استعمال فرد واحد کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے بجائے پروفیشنلزم کی مضبوطی کے لئے ہو ۔ ۔ دھمکیوں ،آزادئ صحافت پر حملہ کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری عناصر کو لگام دی جائے اور ملک سے سزاسے استثنیٰ کے کلچر کو ختم کیا جائے۔
پاکستان میں صحافت کی کہانی اتنی سی ہے ۔۔۔” نہ بس چل رہی ہے ، نہ بس چل رہا ہے۔”

کراچی پریس کلب اور سیفٹی حب نے "ٹرپل ای” کے تحت مقامی ہوٹل میں ہونے والی ورلڈ پریس فریڈم ڈے کانفرنس میں نامی گرامی سینئر صحافیوں کے ساتھ ساتھ، گورنر سندھ عشرت العباد صاحب کے علاوہ مسلم لیگ۔ن کے نہال ہاشمی صاحب اور متحدہ قومی مومنٹ کے فاروق ستار نے بھی شرکت کی۔

تلاوتِ قران پاک کے بعد کانفرنس میں ان صحافیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جو فرض کی ادائیگی میں جان سے چلے گئے۔ جنوری 2000 سے لے کر 31 دسمبر 2015 تک 104 صحافی مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیے گئے ، جن میں سے 38فیصد کو پہلے سے ہی جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس لحاظ سے دنیا میں پاکستان، صحافیوں کے لیے چوتھے نمبر پر خطرناک ملک کہلاتا ہے۔

کانفرنس کی میزبانی کے فرائض جیو نیوز کی معروف اینکر عائشہ بخش نے انجام دئے ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی محمود شام کا کہنا تھا کہ آج میڈیا جہاد نہیں بلکہ ایک انڈسٹری ہے ، اس لیے اپنے کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنا،حکومت سے پہلے میڈیا مالکان کی ذمہ داری ہے۔ حکومتی پالیسیوں کو جانچنے والے،ملک کی مختلف مافیا کے خلاف کام کرنے والے صحافیوں اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔صحافی کترینہ حسین کےمطابق سینئر صحافیوں کو کچھ تحفظ تو مل جاتا ہے مگر ان کے گارڈ ،ڈرائیور اور ڈی۔ایس۔این۔جی کے عملے کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ نیزچینلزکی آگے نکلنے کی دوڑ،سب سے پہلے خبر پہنچانے پر فخر۔۔۔اور ایک دوسرے کے تعاقب میں مالکان اپنے رپوٹروں کو خطرے میں نہ ڈالیں ۔ مشہور صحافی ادریس بختیار نے اس کی حمایت میں کہا کہ فیلڈ پر کام کرنے والے رپوٹروں کی تربیت ضروری ہے کہ وہ مخالفانہ ماحول میں کیسا رویہ اختیار کریں۔مگر مالکان اپنا پیسہ تربیت پر خرچ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اور آج کے دور میں ٓذادی صھافت کے نعرے کی معنیٰ اور مفہعم ہی بدل کر رہ گیا ہے ۔ اب اس سے مراد مالکان کی آذادی تصور کیا جاتا ہے ۔

نیز مشہور ایڈیٹر سجاد میرنے اس بات کو آگے بڑھایا کہ اب کسی بھی چینل میں ایڈیٹر کا کردار ختم کر دیا گیا ہے، مکمل ادارتی اختیارات اب صرف چینل کے مالک کے پاس ہوتے ہیں۔ جوفنڈز ان میڈیا مالکان کو ملتے ہیں ، اسکا اثر میڈیا میں نظر آتا ہے۔کسی پرامریکہ ، کسی پر حکومت کا تو کہیں فوج کا عمل دخل اور کنٹرول واضح ہے۔لہذا ، کارپوریٹ سیکٹر کے ہوتے ہوئے آزاد صحافت ایک خواب ہی رہے گا، جہاں ایک آدمی(چینل کے مالک) کی اجارہداری قائم ہو۔

تجزیہ نگار مظہر عباس نے بھی اسی بات کی توسیع کی کہ پہلے آمروں کے اندر صحافیوں کا خوف تھا کیونکہ پہلے صحافی کے الفاظ میں کاٹ تھی مگر آج یہ حکمران جانتے ہیں کہ کس چینل اور صحافی کا کیا ایجنڈا ہے اور ان سے کیسے نمٹنا ہے۔ جاوید چودھری نےیہی نکتے اجاگر کیے کہ اب ہر شخص، ہر جماعت کو اپنی مرضی کا میڈیا چاہیے۔۔جو ان کے نظریات کی حمایت کرے، اس لیے نئی پود کمر شلزم کا شکار ہو گئی ہے۔ کوئی بھی صنعت کار اہم شخصیات میں اپنی پہچان اور تعلقات بنانے کے لیے ایک اخبار ےاور چینل کھول لیتا ہے۔
کانفرنس میں بہت سے سینئر صحافیوں نے بول چینل پر پابندی لگائے جانے پر بھی احتجاج کیا۔عارف نظامی کے دو ٹوک جملے نے اس کو اس طرح مکمل کیا کہ دوسرے میڈیا گروپ کو بول کا آنا پسند نہیں تھا۔یہ آزادئ صحافت اور صحافی برادری کے آپس کے اتحاد کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

محترم اقبال خٹک جوپاکستانی صحافیوں کے تحفظ کے لیے سر گرم ہیں ، نے کہا پاکستانی صحافت میں وسعت اس وقت آئی جب ملک شدد پسندی کا شکار تھا اس لیے صحافیوں کے لئے باقاعدہ پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ اس سلسلے مین باقائدہ ایک پالیسی تشکیل دی جائے اور قانون سازی کی جائے ۔

دھمکیوں ،آزادئ صحافت پر حملہ کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری عناصر کو سزاسے استثنیٰ کے کلچر کو ختم کیا جائے۔
وفاقی و صوبائی سطح پر صحافیوں کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔
تمام میڈیا مالکان میں اتحاد ہو تاکہ سیفٹی پالیسی تشکیل دی جا سکے ۔

تمام صحافیوں کو حق ہو کہ ان کو تربیت دی جائے، انکی انشورنس ہو اور جدید آلات سے لیس ہوں۔ اور کسی خطرے کی صورت میں صحافی اس اسائنمنٹ کو نہ کرنے کا اپنا حق استعمال کریں ۔
اس کانفرنس میں کراچی پریس کلب، کراچی یونین آف جرنلسٹس ، سندھ جرنلسٹ سیفٹی حب اور سندھ کے صحافیوں کی طرف سے متفقہ طور پر "سندھ جرنلسٹس پروٹیکشن اور سیفٹی بل” کو جلد تیار اور منظور کرانے کی قرارداد پیش کی گئی ، اس قرارداد میں ، حکومتِ سندھ کو میڈیا و صحا فی کو محفوظ اور پیشہ ور بنانے کے کی کوششیں اورصحافیوں کے تحفظ کے لیے سرکاری وکیل بمع دفتر، عملہ اور بجٹ کی تعینات کی شرط شامل کرنے کی شقیں بھی شامل ہیںکانفرنس کے شرکاٗ نے اس قرار داد کی منظوری دی ۔

آخر میں گورنر سندھ نےملک اور میڈیا گروپ کے درمیان امن و ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ بامقصد اور ہدف کے مطابق رپورٹنگ عوام میں بہتر طریقے سے رائے سازی کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ خبروں میں سےجذباتیت کا عنصر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سےنا صرف عوام الجھن کا شکار ہوتی ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کارں پر پاکستان کی غلط تصویر بنتی ہے ۔

کانفرنس کااختتام اس کے بات پر کیا گیا کہ آزادئ صحافت کا ماحول ہمیں خود اختیار کرنا ہوگا، یہ عمل اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے سے مشروط ہیں۔باہمی اتحاد کے علاوہ ، میڈیا ہاؤسز کی ملکیت کے معاملے کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میڈیا ہاوسز کو کسی ایک فرد کی ملکیت سے نکال کر اسے عوامی ادارہ بنایا جائے، میڈیا ھاوسز کو باقائدہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹر کرایا جانا چاہئے ۔ اور اسکے شیئر میں عوامی شمولیت کو یقینی بانیا جائے ، تاکہ میڈیا کا استعمال فرد واحد کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے نہ ہو سکے ۔گورنر سندھ کے مطابق ابلاغِ عامہ کے ڈھانچے میں یہ سدھار مستقبل میں صحافت کی صحیح سمت متعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا ۔ ۔
کانفرنس سے محمود شام ، کترینہ حسین ، عارف نظامی مظہر عباس ، جاوید چوہدی ، سلمان غنی ، اقبال خٹک
عامر ضیاٗ، ۔۔سجاد میر ، سمیع ابراہیم ، جاوید چوہدری ، اے ایچ خانزادہ ۔ اور سلمان غنی نے بھی خطاب کیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے