ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

’’میں ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن کے قریب سے گزر رہا تھا، وہاں پہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو بے چاری نہ تو بول سکتی تھی، نہ سن سکتی تھی،
اور وہ پاؤں سے معذور بھی تھی………….!
درد کے مارے تڑپ رہی تھی…………………!
میں نے ایک قریب والے آدمی سے پوچھا، جو وہیں فٹ پاس پر سوتا تھا؛
’’ یار اسے کیا ہوا ہے؟
اس نے جواب دیا کہ؛
’’ اس کا لڑکا نہیں ہے، یہ بے چاری دو روز سے کھانا کچھ نہیں کھائی ہے اور تڑپ رہی ہے۔‘‘
میں نے کہا؛……….’’ یار………….!
’’ تم تو کھلا سکتے ہو، تم بھی کچھ تو کر سکتے ہو، تم بھی اسٹیشن پر ہی سوتے ہو،‘‘
’’صاحب ہمیں ہی کھانے کو نہیں ملے گا تو ہم اسے کہاں سے دیں‘‘
اس کی یہ بات سن کر میرے آنسو آگئے اور میں نے قریب ہوٹل سے چاول پارسل لئے اور اس عورت کو کھلادیئے۔
میں نے اسی وقت اللہ سے دعا کی کہ:
’’ یا اللہ ! اگر مجھ سے کچھ کام لینا ہے تو مجھ سے انسانیت کاکام لیجئے، میں لوگوں کی بھوک مٹاؤں، ایسا مجھ سے کام لیجئے‘‘
اگلے دن میں نے وائف کو کہہ کر کھچڑی بنوائی اور اسٹیشن پر وہیں کل والی جگہ پر لے آیا،
جب سب کو کھچڑی دی تو لوگ ایسے کھا رہے تھے جیسے کہ کوئی انمول چیز ملتی ہے………….!
(وہ جلدی میں بھوک کے مارے دونوں ہاتھوں سے کھاتے چلے جا رہے تھے)انہیں کھاتے دیکھ کر مجھے میرا بچپن یاد آگیا۔

اس کے بعد میں نے سوچا کہ جیسے بھی ہو اس کام کو کرنا ہے، اور جب تک ہو سکے میں اس کام کو جاری رکھوں گا۔

آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور آج تیرہ سو تیرہ دن ہوگئے ہیں اس پروگرام کو شروع کئے،…………….‘‘..

یہ گفتگو ہے حیدر آباد (انڈیا) کے سید عثمان اظہر مخصوصی کی، جو ایک ٹی وی(2013) شو میں اپنی کہانی سنا رہے تھے۔

نیکی کا شوق اور داعیہ انسان کے دل میں مہمان ہوتا ہے۔ جس مہمان کا اکرام ، خدمت اور عزت کی جاتی خدمت کرتا ہےتو وہ مہمان خوش ہوتا ہے اور دوبارہ آتا ہے، اور جس مہمان کے ساتھ بے توجہی، بے اکرامی یا بدتمیزی کا معاملہ کیا جائےاور اس کا اکرام نہ کیا جائے تو وہ روٹھ جاتا ہے اور دوبارہ نہیں آتا۔ بالکل اسی طرح جب انسان کے اندر کسی نیکی کا جذبہ بیدار ہوتا ہےاور وہ اس جذبے اور شوق کی قدر کرتے ہوئے اُس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے تو یہ شوق پختہ ہوجاتا ہے اور باربار عمل پر اُبھارتا ہے،لیکن اگر دل میں نیکی کا خیال تو آگیا،مگر اسے عمل جامہ نہیں پہنایا گیا بلکہ بے اعتنائی یا سستی سے کام لیتے ہوئے اس کی قدر نہ کی گئی تو پھر یہ ذوق و شوق زیادہ عرصہ نہیں رہتا اور بہت جلد انسان نیکی کے اس جذبے سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔اظہر کے دل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہوا تو اس نے فوری طور پر اسے عملی جامہ پہنایا اور اگلے ہی دن کھانا لے کر مقررہ جگہ پہنچ گیا۔
نیکی کا خیال آتے ہوئے سب سے پہلے اللہ تعالٰی سے مدد اور نصرت کی دعا کرنی چاہئے اور اس کے بعد اپنے پاس مہیا اسباب کی مدد سے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے قدم اٹھا لینا چاہئے۔جب آدمی اللہ تعالٰی کے بھروسے پر مخلوق کی نفع رسانی کا کوئی کام شروع کر لیتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اس میں برکت عطا فرماتے ہیں۔
——————–

سید عثمان اظہر مخصوصی کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا، چار سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، سخت غربت کے حالات میں انہوں نے گورنمنٹ اسکول سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے اور پھر چھٹی جماعت کے ساتھ ہی محنت مزدوری بھی شروع کردی۔ چھٹی جماعت کے بعد 12 سال کی عمر میں ایک درزی کی دکان پر ایک روپیہ یومیہ پر مزدوری کیا کرتے۔اس کے بعد مختلف جگہ مزدوری کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا اور دبیر پورہ فلائی اوور کے پاس پلاسٹر آف پیرس کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔13235859_976150312499310_1935602933_n
اس دوران 2012 میں وہ واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل اوپر گزری اور جو ان کی زندگی میں انقلاب کا باعث بنا ۔وہ دن اور آج کا دن، روزانہ دن ایک بجے حیدر آباد کے دبیر پورہ فلائی اوور بریج کے نیچے ریلوے اسٹیشن سے قریب کافی غریب اور بے گھر لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں اور یہ تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرچکی ہے۔سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا طوفان، چھٹی ہو یا ہڑتال،دن ایک بجے کھانا کھانے اور کھلانے والے پابندی سے پہنچ جاتے ہیں۔

شروع کے دو ماہ وہ دال چاول اپنے گھر میں پکا کے غریبوں کو کھلاتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’ میری وائف نے میرا بہت ساتھ دیا ہے، شروع میں کچھ ماہ تیس پینتیس لوگوں کا کھانا وہ خود بناتی تھی، صبح بچوں کواسکول کیلئے تیار کر تی، ناشتہ کرا کے اسکول بھیجتی، گھر کے کام کاج کرتی اور اسکے بعد دس بجے سے دوبارہ کھانے پکانے میں لگ جاتی‘‘ پھر جب تعداد بڑھنے لگی تو ایک الگ باورچی کا انتظام کرنا پڑا۔

اس فلاحی کو شروع کرنے کے بعد انہیں بعض اوقات آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ’’پروگرام کے ستترویں(77) دن صبح کے وقت دس بجے کے قریب تک میرے پاس بالکل پیسے نہیں تھے(ان دنوں دکان پہ بھی کام خاص نہیں تھا )میں دکان پر پریشان بیٹھا تھا کہ اس دوران باورچی آگیا اور کہا کہ اظہر بھائی سودا ختم ہے، سودا لینا ہے، میں نے اسے کہا کہ تم جاؤ، میں بھجوا رہا ہوں۔

اب سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ تو اس دوران میری نظر ان اخبارات کے پلندوں پر پڑی جو میرے دفتر میں کافی مقدار میں جمع ہو چکے تھے۔ میں نے اپنے ملازم کو بلایا ، وہ اخبارات اور کچھ فالتو سامان کباڑئے کے پاس بھجوا دیا۔ اس سے تیرہ سو روپے حاصل ہوئے،میں نے فوراً راشن منگوایا اور اس دن پروگرام ٹھیک طریقے سے پورا ہوگیا، اس دن تو ہوگیا لیکن اب دوسرے دن 13236216_976150365832638_563928161_nکیلئے کچھ نہیں تھا، میں آج پر یقین رکھنے والا ہوں، کل کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں۔جو کمانا ہے کماؤ، آج خرچہ کرو، اس نے پیدا کیا ہے تو وہ رزق دے گا، یہ میرا ایمان ہے۔چانچہ اسی دوران اسی شام میں ایک کسٹمر آیا اور اس نے بیس ہزار ایڈوانس دیتے ہوئے کہا کہ صبح ہی کام شروع کروا دو، اس طرح مجھے ایک بڑا کام بھی مل گیا اور ایڈوانس پیسوں سے فلاحی پروگرام کا سلسلہ بھی چل نکلا۔،تو اس طرح کام چلتا رہتا ہے۔

جب انہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے،وہ کہتے ہیں: اگرچہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں میں اس پروگرام کو جاری رکھ سکتا، لیکن دل میں آیا کہ بس شروع کر دو، جو کام اوپر والے کو جس سے لینا ہوتا ہے وہ لے لیتا ہے۔وہ خود ہی راستے بنا دیتا ہے۔‘‘

جب اظہر کی فلاحی خدمات سامنے آنے لگیں تو دردِ دل رکھنے والے دیگر لوگ بھی متوجہ ہونے لگے اور انہیں مخلص دوستوں کی ایک ٹیم میسر آگئی۔گویا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

جب کام مزید آگے بڑھا تو انہوں نے اپنے کام کو منظم کرنے اور قانونی پیچیدگیوں سے پچنے کیلئے’’ثانی ویلفئیر ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی رجسٹر کروا لیا اور اب ان کی فلاحی خدمات کا دائرہ تعلیم کے شعبوں سے لے کر زلزلہ زدگان کی مدد تک،عوام الناس کیلئے علاج معالجے کی سہولیات سے لے کر خواتین کو سلائی کڑھائی کی تربیت تک اور کھانا فراہم کرنے سے لے کر سردیوں میں گرم کپڑوں کی تقسیم تک پھیل چکا ہے جو مسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ اب انہوں نے دبیر پورہ برج کے علاوہ گاندھی ہسپتال کے باہر بھی بے گھر و غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔

جب ان کے کام کی شہرت ہوئی تو ہندوستان کے مختلف اخبارات میں ان سے متعلق اسٹوریاں شائع ہوئیں اور کئی سماجی و سیاسی شخصیات نے انہیں شرفِ ملاقات بخشا اور حوصلہ افزائی کی۔ متعدد نیوز چینلز نے ان پر اسٹوریاں فائل کیں۔ امیتابھ بچن کے مشہور پروگرام ”آج کی رات ہے زندگی“ میں بھی انہیں بلایا گیا اور ان کی بھرپور پزیرائی کی گئی اور انکی خدمات کی زبردست ستائش کی گئی۔ ( اس مضمون کے ابتداء میں جو اظہر مخصوصی کی گفتگو نقل کی گئی ہے وہ بھی اسی انٹرویو سے لی گئی ہے۔یوٹیوب پر ان سے اور ان کے کام سے متعلق بے شمار ویڈیوز موجود ہیں)

امیتابھ بچن نے سچ کہا؛’’اگر اظہر جی چاہتے تو اس دن کا جو حادثہ ہوا اسے دیکھ کے آگے بڑھ جاتے ، یہ آگے بڑھے لیکن واپس آنے کیلئے‘‘

اظہر نے اسی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ: ’’ میں نے بھوک اتنی برداشت کی ہے کہ دو دو دن بھوکے گزارے ہیں، بھوک کیا ہوتی ہے، مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا‘‘،یہ بات بتاتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئے۔حقیقت 13282109_976150345832640_1377875853_nیہی ہے کہ جس نے خود درد اٹھایا ہو وہ دوسروں کے درد کو سمجھ سکتا ہے۔ بقول قاری حنیف ڈار : ’’ جس نے بھوک چکھی ہو وہ دوسرے کی آنکھ میں بھی بھوک تلاش کر لیتا ہے. مگر جس نے نہ چکھی ہو اس سے فریاد بھی کرو تو نہیں سنتا‘‘

خود اظہر کا کہنا ہے کہ : ’’جب آپ ارادہ کرلیتے ہیں تو ساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ میری والدہ نے مجھے کہاکہ دوسروں کی مدد کرنا اصل کامیابی ہے اور میں اسی پر عمل کررہاہوں۔ جو کچھ مجھ سے ہوسکتاہے وہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ جب ہم کوئی کام شروع کردیتے ہیں تو خود بخود راستے بھی کھل جاتے ہیں۔‘‘

’’یہ مکمل طور پر اوپر والے کی مدد ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ میں کسی سے ہیلپ لوں گا، اگر کوئی اپنی خوشی سے آتا ہے تو موسٹ ویلکم‘‘

’’ میری ماں نے مجھے بے انتہاء تکلیفوں سے پالا ہے، ہمیشہ ماں کا یہ کہنا ہوتا ؛ بیٹا پیسے کما لیں گے ہم، زندگی پڑی ہے کمانے کیلئے، کبھی یہ نہیں کیا کہ تم جاو، محنت کرو کما کے لاؤ، بس یہی بولتی تھیں کہ تم پڑھو، ہمارے نانا کچھ پیسے دیتے تھے، اس سے ایک ٹائم کھانا بن جاتا تھا، اگر مجھے پتہ چلتا کہ کسی کے پاس دعوت ہے تو اس دعوت کی تیاری میں آٹھ دن پہلے سے کرتا،کہ فلاں دن دعوت ہے مجھے وہاں جا کے پیٹ بھر کے کھانا ملے گا،تو صاحب…….!

’’جو کام بھی ہم اللہ کیلئے کرتے ہیں اور لوگوں کی بھلائی کیلئے کرتے ہیں اس کے لئے کوئی پلان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے‘‘

اظہر اب بھی پلاسٹر آف پیرس کے کاروبار سے منسلک ہیں اور اپنی دکان کو وقت دیتے ہیں، اگرچہ دکان چھوٹی سی ہے مگر اظہر کا دل بہت بڑا ہے اور اگرچہ اس دکان سے حاصل ہونے والی کمائی معمولی ہے لیکن اس دکان کے مالک کا عزم و حوصلہ غیر معمولی اور ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔

جب انسان کسی کام کا عزم کر لیتے ہیں جو اس کی تکمیل کیلئے اپنی کوشش شروع کر دینی چاہئے، بڑے کام ہمیشہ چھوٹے پیمانے سے ہی شروع ہوئے، بلندو بالا عمارت زمین ہی سے اٹھنا شروع ہوتی ہے اور بلندی پر پہنچنے کیلئے سیڑھی کے پہلے اسٹپ پر پاؤں رکھنا لازمی ہے۔بڑے بڑے فلاحی 13245918_976150329165975_905548427_nادارے، نامی گرامی تجارتی کمپنیاں، عظیم کاروباری منصوبے اور شخصیات ایک ہی دن میں بڑے نہیں بن گئے بلکہ سب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، سب نے عزم و ہمت اور جہدِ مسلسل کے ساتھ چھوٹے پیمانے سے کام شروع کیا، اور دنیا میں نام پیدا کر گئے۔

اظہر نےوسائل مہیا نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالٰی کے آسرے پر گھر سے کام شروع کیا اور13281699_976150319165976_1482225501_n آج اس کی نگرانی میں بیک وقت پانچ چھ فلاحی منصوبے چل رہے ہیں، اور اہم بات یہ کہ اس ساری تگ و دو اور کدو کاوش کو اوپر والے کا فضل قرار دیتے ہے آج بھی خود کو ایک محنت کش ہی سمجھتا ہے۔۔
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا…….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے