کئی مرتبہ اس ملک کو یہ موقع ملا کہ ہم اپنے آپ کو آزاد کروا لیں اس قید سے جو قیام پاکستان کے بعد بننے والی پہلی خارجہ پالیسی کے باعث ہمیں تحفتاً ملی۔۔ہم سے یہ بھی نہیں ہو سکا کہ ہم بھارت کی طرح بیک وقت تمام ممالک سے دوستی رکھ سکیں۔ ہم نے روس کا ہاتھ جھٹک دیا اور ہاتھ کو لمبا کرتے ہوئے بہت دور جاکے امریکہ سرکار سے ملایا۔۔ اس دور میں شاید امریکہ بھی پاکستان کو اپنا غلام نہیں بلکہ دوست سمجھتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوستانہ مراسم کب غلامی میں تبدیل ہوئے ہم بے چاروں کو معلوم ہی نہ ہوسکا۔
بھارت نے امریکہ ، روس، اسرائیل ، فلسطین سمیت سب سے دوستانہ تعلقات برابری کی سطح پر رکھے اور آج بھی کامیاب ہے، یہاں تک کہ وہ آج ان ممالک کا دوست بھی ہے جو کبھی ہمارے دوست ہوتے تھے۔سب سے پہلے افغانستان، پھر ایران اور آج چین سے بھی بھارت کے خوشگوار مراسم ہیں۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار محل کے اندر قدم رکھا تو اپنی وسیع سوچ کے باعث روس سے بھی تعلقات استوار کیے ، پاکستان سٹیل مل روس کا دیا تحفہ ہی ہے، جسے یار لوگوں نے سیاست کی نذر کر رکھا ہے ، سب کہتے ہیں نواز شریف کو سٹیل مل چلانے کا تجربہ ہے وہ یہ چلا سکتے ہیں۔۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ سٹیل مل کا بھی وہ حال ہے جو کراچی کی بسوں کا ہوتا ہے، اوور لوڈڈ۔۔جو پی ٹی وی کا اور ریڈیو پاکستان کا ہے۔۔ جو ہر سرکاری ادارے کا ہو چکا ہے جہاں ضرورت نہ ہونے پر بھی ہر حکومت بھرتیاں کیے جاتی ہے تاکہ ووٹ پکے کیے جا سکیں۔ پی آئی اے، پاکستان ریلویز۔۔۔ کس کس ادارے کا نام لیں، ہر ادارے میں ملازمین کا ڈھیر ہے۔ کوئی کیسے اسے کامیاب بنا سکتا ہے۔ نجی اداروں میں بھرتیاں سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے جبکہ سرکاری ادارے میں ملازمت دینے کے بعد سوچنے کا کام شروع کیا جاتا ہے کہ اس سے کیا کام لینا ہے؟۔
روس کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو نے جس ملک کے ساتھ دوستی کی وہ عوامی جمہوریہ چین ہے۔ جو خطہ میں اس وقت پاکستان کا اکلوتا دوست ہی دکھائی دے رہا ہے۔۔ چین کے بھی پاکستان کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں سب سے بڑی وجہ ہے بھارت کے ساتھ قدیم تنازع۔۔ پھر بھارت اس خطہ کی سپر پاور بننا چاہتا ہے جو چین کو قبول نہیں۔ اس کے لیے چین کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہی پڑے گا۔
اس لئے یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ اگر خطہ میں پاکستان کا کوئی سچا دوست ہے تو وہ بحیرہ عرب ہی ہے، کسی بھی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کیسے بنائے یا برقرار رکھے جاتے ہیں ہمیں نہیں معلوم۔۔ بس یہ جانتے ہیں کہ مانگنا کیسے ہے۔۔ اور یہ بالکل سادہ سا فارمولہ ہے کہ اگر آپ ہر وقت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے رکھیں تو پھر آپ دوستی نہیں غلامی کے خواہشمند ہی کہلائیں گے۔
آج دیکھئے ہماری بد نصیبی کہ ہم نے جس ملک کے لوگوں کو برے وقت میں پناہ دی، ان کی صرف لڑائی ہی نہیں بلکہ لاکھوں مہاجرین بھی اپنے ملک میں کھینچ کر لائے، انہیں پالا پوسا، پاکستان ان کے لیے امریکہ سے کم نہیں تھا۔۔ وہ کم بخت خود تو آئے مگر ساتھ لائے ہیروئین، کلاشنکوف اور بدامنی۔۔اس کے باوجود ہم نے کبھی حرف شکایت لبوں پر نہیں سجایا۔ آج وہ افغانستان۔۔ ہمارے اذلی دشمن بھارت اور نئے دشمن ایران کے ساتھ مل کر انکل سام کی گود میں بیٹھ کر نئی نئی سازشیں کر رہا ہے۔
سازشیں تو وہ پہلے بھی کرتا رہا لیکن آج اس کی ہمت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس نے پاکستان کو اپنے ہی علاقہ میں سرحدی گیٹ لگانے سے روکنے کے لیے ہماری افواج پر حملہ کر دیا ہے۔ ہمارے کئی بہادر سپاہی شہید ہو گئے ہیں۔ آج وقت آن پہنچا ہے جب ہم ایک مضبوط اور دیرپا خارجہ پالیسی بنانے کی طرف قدم رکھیں۔ امریکہ سے بھی دو ٹوک گفتگو کی جائے جس طرح ایران نے تمام تر پابندیوں کے باوجود ماضی میں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کی تھی۔ آج ہمیں اپنے ملک میں بھی کسی آیت اللہ خمینی کی ضرورت ہے جو اس ملک کو ایک باوقار ملک بنانے کے لیے پالیسیاں بنائے جبکہ آج خود ایران کو بھی ایک اور خمینی کی ضرورت ہے جو امریکی سامراج کا ایجنٹ نہیں بلکہ اس کو للکارنے والا تھااس کے ساتھ مل کر اپنے دوست ملک کی جڑیں کاٹنے والا نہیں۔۔
حکومت کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ گئے دور میں صاحبزادہ یعقوب خان کی عمر کے وزرائے خارجہ ضرور معتبر سمجھے جاتے تھے مگر آپ نے اس کا غلط مطلب نکال لیا، آپ نے صرف یہ دیکھ کر ایک ایسے شخص کو مشیر خارجہ بنایا ہے کہ اس کی صرف نبض چل رہی ہے اور عقل ماشااللہ اسی سٹیج پر پھنسی ہے جہاں آج سے اٹھارہ سال پہلے تھی۔خدا کے لیے یہ مذاق بند کریں، ملک کو ایک فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔۔۔ طارق فاطمی اور سرتاج عزیز۔۔ دونوں کی رسہ کشی میں وزارت خارجہ ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ خدا کے لیے اپنی پارلیمنٹ یا پارٹی میں سے نہیں تو کم از کم اپنے خاندان میں سے ہی کسی کو وزیر خارجہ بنا دیں۔۔ ورنہ پھر لوگ یہی سوال کرتے رہیں گے کہ ہماری خارجہ پالیسی کون بناتا ہے؟